زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے اکثر اجنبی لوگوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔کسی ضرورت یا کام کے سلسلے میں ان اجنبیوں میں سے کچھ لوگ آہستہ آہستہ جان پہچان والے بن جاتے ہیں، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان جان پہچان والوں میں سے کچھ لوگ دوست بن جاتے ہیں۔ یہ دوست الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔
کچھ ایسے دوست ہوتے ہیں جن کی جیب میں کبھی کھلے پیسے نہیں ہوتے۔ چاہے آپ ان سے کہیں، کسی وقت، کسی بھی موقع پر ملیں، ان کے جیب میں ایک اتنا بڑا نوٹ ضرور ہوگا جو لاکھ کوشش کے باوجود بھی کھلا نہیں ہو سکے گا۔
ایک بار ایسے ہی دوست سے واسطہ پڑا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت میری جیب میں ہزار کے کھلے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اسے کافی سمجھایا کہ مجھے نوٹ دے دو، اور کھلے لے لو۔ میرے اصرار پر جب اس نے اپنا والٹ نکالا تو پتا چلا کہ وہ نوٹ گم ہو گیا ہے۔ بڑا ہی کوئی شاطر جیب کترا ہوگا، جس نے جینز کی جیب سے والٹ کے اندر بیسیوں کاغذات کے درمیان سے ہزار کا نوٹ چرا لیا۔ایسے موقعوں پر از راہِ مروت آپ کو پیسے دینے پڑ جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں نے در اصل ایک ایسی عینک لگائی ہوتی ہے، جس سے ہر دوسرا بندہ ایک چلتا پھرتا اے۔ٹی۔ایم نظر آتا ہے۔ایسے لوگ عموماً اتنی رقم ادھار لینا پسند کرتے ہیں، جتنی آپ بعد میں مانگتے ہوئے شرمائیں۔اگر آپ بے شرم بن کر اس رقم کا تقاضا کر لیں، تو انکا جواب کچھ اسی قسم کا ہوتا ہے
"یار تجھے اس دن چائے پلائی تو تھی میں نے۔ وہ بھی دودھ پتی۔ برابر ہو گیا نا حساب۔"
کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جن کے ہمراہ اگر کبھی کھانا کھانے جائیں، توان کو کھانے کے دوران۔۔۔
تو البتہ کوئی یاد نہیں کرتا، لیکن کھانا ختم ہوتے ہی بل کے آنے سے پہلے کوئی ضروری کام یاد آجاتا ہے، یا کوئی ضروری کال آجاتی ہے۔ احساسِ ذمہ داری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ایسے لوگ فوراً ہی" کٹ" جاتے ہیں۔ اگر آپ اس عادت سے واقف ہوں اور بھاگتے چور کی لنگوٹ پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ کچھ مخصوص جملے اپنی صفائی میں کہیں گے۔
تو البتہ کوئی یاد نہیں کرتا، لیکن کھانا ختم ہوتے ہی بل کے آنے سے پہلے کوئی ضروری کام یاد آجاتا ہے، یا کوئی ضروری کال آجاتی ہے۔ احساسِ ذمہ داری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ایسے لوگ فوراً ہی" کٹ" جاتے ہیں۔ اگر آپ اس عادت سے واقف ہوں اور بھاگتے چور کی لنگوٹ پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ کچھ مخصوص جملے اپنی صفائی میں کہیں گے۔
"ابے یار میں نے تو صرف ایک پوری کھائی ہے۔"
"یار میں نے تو بوتل پی ہی نہیں تھی۔"
وہ الگ بات ہے کہ سب کی بوتل سے تبرکاً ایک گھونٹ ضرور پیا ہوگا۔
ہم تو کہتے ہیں کہ پوری پوری کا حساب بھی کیوں لگا رہے ہو۔ نوالے کتنے بنے تھے یہ بھی بتا دو۔ اور چنے کی پلیٹ کا وزن کتنے گرام تھا، یہ بھی چیک کر لو۔ کہیں ہوٹل والے کی غلطی سے ہو سکتا ہے آپکی پوری ایک آدھ انچ کم ہو اور بلا وجہ آپکی موٹی تازی جیب سے ۵ پیسے اوپر نکل گئے تو قیامت میں ہم کیا منہ دکھا ئیں گے۔ وہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگوں کی پلیٹ کا وزن گرام میں نہیں، کلو گرام میں ہوتا ہے۔
کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی مشکل گھڑی میں آپ کی مدد کیلئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو آپ کا خیر خواہ مانتے ہیں اور اکثر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔یہ عملی اقدامات کے قائل ہوتے ہیں۔ آپ کبھی مصیبت میں پھنسے ہوں، اور انہیں یاد کریں، تو یہ کبھی آپ کا فون نہیں اٹھائیں گے۔ کیونکہ یہ صرف عمل پر یقین رکھتے ہیں، باتوں میں نہیں۔
کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جنہیں عرفِ عام میں پھیکو کہا جاتا ہے۔ یہ ملکِ گفتار کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ان کا ہتھیار ان کی زبان ہوتی ہے۔ اور وہ اس شمشیرِ بے نیام کو اس قدر استعمال کرتے ہیں کہ اگر چپ ہوں تو موت کا گمان ہوتا ہے۔ ان کے قول کا فعل سے اتنا ہی تعلق ہوتا ہے جتنا زرداری کا ایمانداری سے ہے۔
ایسے دوستوں کے لا تعداد کزن، چاچا ، ماما ہوتے ہیں، جن میں سے کوئی ایک امریکہ یا یورپ میں رہائش پذیر ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی خطے کا نام لیں، چاہے وہ فرضی ہی کیوں نہ ہو، انکا کوئی چاچا، ماما یا کزن وہاں لازمی جا چکا ہوگا۔ آپ دنیا کی کوئی سی ڈگری حاصل کر لیں، کچھ بھی کام کر لیں، لیکن آپ ان کے رشتہ داروں سے سبقت نہیں لے جاسکتے۔جدیدفلمی اصطلاح میں یوں سمجھ لیں کہ یہ بالی ووڈ کے ناظرین کیلئے رجنی کانت اور ہالی ووڈ کے ناظرین کیلئے چک نورس کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔
کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جو آپ کو زندگی میں کافی طویل عرصے بعد اتفاقاً کہیں ملیں گے اور ملتے ہی آپ کو احساس دلائیں گے کہ آپ کے بنا انکی زندگی کتنی بے رنگ اور پھیکی تھی اور اب آپ کو یوں سرِ راہ دیکھ کر انکی مدت سے رکی سانسیں بحال ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو آپ کی اہمیت کا اندازہ دلانے ہی آتے ہیں۔ آپ کچھ لمحوں کیلئے سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یار میں اس دوست کو کیوں فرا موش کیے بیٹھا تھا۔ یہ آپ کو زیادہ دیر اس کشمکش میں نہیں رکھیں گے اور دس منٹ میں ہی آپ کو یاد آجائے گا کہ ہاں یار، اس وجہ سے فراموش کیے بیٹھا تھا۔ یہ لوگ دل کے بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ بس ایک چھوٹی سی بد نصیبی اکثر و بیشتر ان کے ساتھ رہتی ہے جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اتفاق سے اور محض اتفاق سے جس دن کال کرنے والے ہوتے ہیں،یا سرِ راہ اچانک ملنے والے ہوتے ہیں، اس سے ایک دن پہلے ہی انکا کوئی ضروری کام اٹک جاتا ہے، اور یہ بھی محض ایک اتفاق ہی ہوتا ہے کہ اس کام کا حل کسی نہ کسی صورت میں آپ سے جڑا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ خواہ مخواہ بدنام ہو کر مطلبی ٹٹو کا خطاب پاتے ہیں۔
ایک ایسا ہی دوست مجھے کافی عرصے بعد ایک دعوت میں ملا۔ ہم کالج میں کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ اس نے مجھے پہچان لیا تھا، کافی دیر تک بات چیت کرنے کے بعد اس نے ازراہِ مروت میرا نام پوچھا۔ میں نے بھی غصے اور صبر کے ملے جلے، کڑوے اور میٹھے شربت کا ایک گھونٹ پیا اور اپنا نام بتا دیا۔ وہ مجھ سے کافی دیر تک بات چیت کرتا رہا اور میری صلاحیتوں کے گن گاتا رہا۔ یونہی باتوں میں ، میں نے ذکر کیا کہ آجکل ڈبل سواری پر بہت سختی ہے، اور میں صرف سنگل ہی چلاتا ہوں۔ اتفاق دیکھیے، اسی وقت میرے اس دوست کو، بھیڑ میں کہیں دور کھڑا ایک اور دوست نظر آگیا اور وہ اس کے پاس کسی ضروری کام سے چلتا بنا۔ غالباً اسے اس کا نام بھی یاد نہ تھا۔
کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جو ہمہ وقت آپ کو "کاٹنے"کی تاک میں رہتے ہیں۔ جوتے کی نئی لیس خریدیں یا نئی مرسیڈیز کار، یہ لوگ ٹریٹ مانگتے ہوئے بالکل بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ دراصل یہ آپ کی خوشی میں آپ سے زیادہ خوش نظر آتے ہیں، اور آپ کے غم میں سرے سے نظر ہی نہیں آتے۔
ان سب کے علاوہ کچھ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جنہیں دوست کہا ہی نہیں، مانا بھی جاتا ہے۔ان میں مندرجہ بالا خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ اور باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ دوست جو وقت بیت جانے، کام ختم ہو جانے یا اسکول کالج کا
زمانہ گزر جانے کے بعد بھی آپ کی زندگی میں رہ جاتے ہیں۔ایسے دوست بے غرضی، خلوص اور وفا داری کا پیکر ہوتے ہیں اور آپ کی زندگی میں ایسے دوستوں کی موجودگی سے، آپ کو اپنے حسنِ انتخاب پرفخر ہونے لگتا ہے۔
اللہ پاک کا احسان ہے کہ میں اس معاملے میں کافی خوش قسمت رہا ہوں۔ مجھے ہر طرح کے دوست ملے ہیں۔ کچھ ایسے جو آئے اور چلے گئے۔ کچھ ایسے جو آئے اور جانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے جو دوستی کی اس یک طرفہ شاہراہ پراس طرح آئے ہیں کہ وہ خود کبھی جائیں گے نہیں، اور میں انہیں ان شاء اللہ کبھی جانے نہیں دوں گا۔