میں ایک ذمہ دار پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی معاملات سے اتنا ہی دوررہتا ہوں جتنا ایک ذمہ دار طالب علم کتابوں سے دور ہوتا ہے۔سیاسی معاملات پر لکھنا مجھ جیسے کم فہم انسان کا کام نہیں۔ لیکن آج ایک بات نے مجھے لکھنے پرمجبور کر دیا۔۔۔ہم بحیثیت ایک قوم ، ہمیشہ سے ایک اچھے لیڈر کیلئے ترستے آئے ہیں لیکن جب علامہ طاہر القادری جیسے سچے اور ایماندار لیڈرہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم ان پربھی کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتے۔۔۔
طاہر القادری صاحب کا دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر لوگوں کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔۔۔ یوں تو ہم ہمیشہ مساوات، برابری، اورامیر غریب کیلئے یکساں حقوق کی باتیں کرتے ہیں مگر جب لیڈرانِ کرام پر کوئی بات آجائے توساری مساوات خاک ہو جاتی ہے۔ ہم انھیں وہ حقوق نہیں دیتے جو عوام کو حاصل ہوتے ہیں۔۔۔یہ دوہرا معیار بھی صرف ہمارے لیڈران کیلئے ہی مختص ہے کہ انھیں وطنِ عزیز میں آکر بھی غریب الوطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ پچاس گاڑیوں اور بیسیوں باڈی گارڈزکے جھرمٹ میں سفر کرنے کی صعوبتیں بھی انھیں ہی جھیلنا پڑتی ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ سب کر کے بھی بدنام ہی ہوں۔۔۔
پچھلی بار بھی دھرنے میں عوام کو تو کھلم کھلا بارش میں نہانے کی چھوٹ دی گئی تھی جبکہ قادری صاحب کو ایک کنٹینرمیں مبحوس رکھا گیا تھا۔ اس بار بھی جب جان کی بازی دینے کا موقع آیا تو قادری صاحب کے بے حد اصرار کے باوجود انھیں خاطر خواہ مواقع نہیں دیے گئے، اورحسبِ سابق اسی چھوٹے سے کنٹینرمیں قید رکھا گیا۔بعد ازاں، ان کی بے پناہ خدمات کا صلہ انھیں اس طرح دیا گیا کہ ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔۔۔
ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ایک لیڈر، اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دو مہینے کیلئے اپنے ملک آتا ہے تو ہم لوگ اسے واپس نہیں جانے دیتے۔۔حالانکہ انقلاب تو کسی وقت اور جگہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنی لیڈرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے جس کونے سے چاہیں، انقلاب لا سکتے ہیں۔ یہ تو ان کی ذرہ نوازی اور ہم غریب عوام اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے محبت ہے کہ انھوں نے انقلاب فنڈ کے کارِ خیر کیلئے ہمیں چنا۔۔۔.کینیڈین ڈالر کتنا مہنگا ہے،اورایک ایک کر کے بانوے روپے جوڑے جائیں تو ایک ڈالر بنےگا، پھر بھی انھوں نے ہمت نہ ہاری اورآخرکارقطرہ قطرہ سمندر بنا ہی لیا۔ بس اب اس "سمندر" کو سات سمندر پار کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
طاہر القادری صاحب کے "نوٹ" مانگنے پر اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یہی پیسے اپنی ذات پر تو ہم بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں لیکن جہاں علامہ صاحب نے فنڈ مانگ لیا، تو سب کو کرپشن یاد آگئی۔۔۔ وہ سات سمندر پار سے ہمارے مسائل حل کرنے آئے ہیں تو کیا آمد و رفت کا خرچ دینا ہمارا معاشرتی فرض نہیں بنتا؟ کیا مہمان نوازی کے اصول بھول گئے ہیں ہم لوگ؟
دوسری اہم بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ وہ یو-ٹرن بہت لیتے ہیں۔ میرے حساب سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ تو عین عقلمندی ہے کہ ایک لیڈر کو پتا ہو کہ کب کون سا پتا پھینکنا ہے اور کب کون سی چال چلنی ہے۔وہ جھپٹنے، پلٹنے، پلٹ کر جھپٹنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ویسے بھی کینیڈا کے سرد موسم میں دس مہینے رہنے کے بعد انسان کو لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ملنا چاہئے۔ اگر چہ اس جھپٹنے اور پلٹنے کے درمیان کا وقفہ ایک سال کا ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔آخر عوام کے حقوق کی جنگ کوئی چھوٹی جنگ تو نہیں کہ دو دن میں پھر سے پلٹ کرجھپٹا جائے۔
رہی بات ان کے قول و فعل میں تضاد کی ، تو یہ ہم لوگوں کوسمجھنا چاہئے کہ یہ سب تو وقت کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے کیے ہوئے سارے وعدے اسی سال پورے کر دیں گے، تو اگلے سال لہو گرم کرنے کہاں جائیں گے؟ آخر کار، وہ بھی ہماری ہی طرح ایک انسان ہیں۔جس طرح ہم اپنے گھر سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتے، ویسے ہی انھیں بھی وہاں کی دسمبرکی سرد شاموں کی یاد ستاتی ہے، تو بے قرار دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس جانا پڑتا ہے۔
ہم عوام اس حد تک قوم پرست ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اب علامہ صاحب ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر ہیں، انھیں پاکستان کے ساتھ ساتھ کینیڈا کا بھی بھلا سوچنا ہوتا ہے۔ ہمیں تو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ وہ ہر سال کم از کم گرمی کی چھٹیاں منانے پاکستان تو آتے ہیں۔۔۔ گویا عوام کی رہنمائی کیلئےانگلی کیا دکھائی، لوگ کلائی پکڑ کےپیچھےہی پڑ گئے۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ جس قوم کو قادری صاحب کا فتح کا نشان دیکھ کر کترینہ کیف یاد آجاتی ہو، وہ قوم ایسے لیڈر کی مستحق ہی نہیں۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ ضرور دیں، ایسے نہیں جانے دیں گےہم