اسکردو ڈائری
یاسر یونس
کراچی سے اسکردو
آوارہ گردی اور گھومنے پھرنے کا شوق ایک بار پھر ہمیں سعودیہ سے اڑا کر
کراچی لے آیا تھا، اور اب پہاٰڑوں اور جھیلوں کی پکار ہمیں کراچی سے اپنی طرف
کھینچ رہی تھی۔۔۔آخر کار ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور اس بار ہماری منزل
اسکردو تھی۔۔۔
دس دن پر مشتمل یہ سفر سات اپریل ۲۰۱۹، اتوار کی رات نو بجے شروع ہوا جب ہم کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچے۔۔سفر کا آغاز
حسب معمول ٹرین کی تاخیر سے ہوا اور نو بجے چلنے والی گرین لائن دس بجے روانہ
ہوئی۔۔ کراچی سے ہم چار بندے تھے، میں یعنی یاسر، یاور، مبشر اور
ارسلان۔۔۔ہمارا پانچواں ساتھی، جہانزیب لاہور سے ہمارے ساتھ شامل ہونے والا
تھا۔۔۔
ابتدائی سفر پھرپور جوش اور جذبے کے ساتھ، کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے
گزرا۔۔۔سفر کی ابتدا تھی، جیب بھی بھاری تھی، سو، ٹرین میں اسپیشل چکن کڑاھی
بنوائی اور مزیدار ڈنر کیا۔۔۔لاہور پہنچے تو گروپ کا پانچواں ساتھی کافی دیر
سے ٹرین کا منتظر تھا۔۔۔ آخر کار، چوبیس گھنٹے بعد پیر کی رات دس بجے پنڈی
پہنچے۔۔۔ ٹرین کی تاخیر کی وجہ سے اب وقت کم تھا، اور ہمیں یہاں رکے بغیر
سیدھا سوات کیلئے روانہ ہونا تھا۔۔۔بھاگم بھاگ فیض آباد پہنچے لیکن رات کی
کوئی بس موجود نہ تھی۔۔۔اب فیض آباد سے ٹیکسی کروا کر پشاور روڈ پر واقع
ڈائیوو اسٹاپ کیلئے روانہ ہو گئے۔
یہ ہمارا فدا حسین بھائی کے ساتھ دوسرا سفر تھا۔۔۔اس سے پہلے ہم فدا بھائی کے ساتھ سوات، مالم جبہ، چترال اور کیلاش کا ایک سفر کر چکے تھے۔۔۔
سب نے ساتھ مل کر ناشتہ کیا، جیپ میں سامان لوڈ کیا، سامنے جنرل اسٹور سےکچھ
سفر کا ضروری سامان خریدا اور سات بجے ہم اسکردو کیلئے روانہ ہو گئے۔۔یہ عمر،
وقت، راستہ۔۔۔گزرتا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔ادھر کا ہی ہوں
نا، ادھر کا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔یہ گانا ہمارے اس سفر کی
صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔۔۔
ٹرین، اور بس کے سفر کے بعد اب یہاں سے جیپ کا سفر شروع ہوا۔۔۔اب ہمارے اگلے
سات دن اسی جیپ میں گزرنے تھے۔۔۔کم و بیش پورا سفر، ہم نے جیپ کی فرنٹ سیٹ پر
بیٹھے ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، مبشر نے فوٹوگرافی کرتے
ہوئے، یاور اور ارسلان نے یونیورسٹی کی باتیں کرتے ہوئے اور جہانزیب نے سوتے
ہوئے گزارا۔۔۔
ہمارے پلان کے مطابق ہمیں سوات سے براستہ خوازہ خیلہ، بشام، اور پھر شاہراہ
قراقرم پر داسو اور چلاس سے ہوتے ہوئے جگلوٹ پہنچ کر پہلا پراؤ ڈالنا تھا
۔۔۔سوات سے جب ہم چلے، کچھ گھنٹے بعد ہی سڑک پر تعمیراتی کام کی وجہ سے رستہ
بند تھا اور کئی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔۔۔خوش قسمتی سے یہ رکاوٹ آدھے گھنٹے
میں ہٹ گئی، اور ہم پھر سے بشام کی جانب رواں دواں تھے۔۔
بشام پہنچ کر اب ہمارا اور شاہراہ قراقرم کا ساتھ شروع ہوا۔۔شاہراہ قراقرم،
جسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، یہ واقعتاً دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔۔۔بیس
سال کے عرصے میں بننے والی یہ تیرہ سو کیلومیٹر طویل شاہراہ پاکستان اور چین
نے مل کر بنائی تھی، جو دونوں ملکوں کوملاتی ہے۔۔۔اس کی تعمیر میں تقریباً نو
سو افراد نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔۔۔ قراقرم کے پہاڑوں میں سطح سمندر سے اونچائی پر بنائی جانے والی
پختہ شاہراہ کی وجہ سے اسے آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے۔۔۔اگر یہ کہا جائے کہ اس
پر سفر کرنے والے کو اس سے عشق ہوجاتا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔۔۔اس کے بل کھاتے
موڑ اور نشیب و فراز، نیچے بہتا دریائے سندھ، اور پس منظر میں برف سے ڈھکے
پہاڑوں کی چوٹیاں اس کی سحر انگیز خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔۔۔
ہم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے داسو پہنچے تو دوپہر ہو چکی تھی، اور صبح
کا ناشتہ ہضم ہو چکا تھا۔۔۔رستے میں ایک ہوٹل پر رکے اور کابلی پلاؤ کا لنچ
کیا۔۔۔شام پانچ بجے ہم چلاس پہنچے، اور ایک چائے کے ہوٹل پر چائے پی کر تازہ
دم ہوئے اور سفر بدستور جاری رہا۔۔۔آخر کار، رات دس بجے ہم جگلوٹ پہنچ گئے۔۔۔
بھوک اور نیند سے برا حال تھا۔۔
اڑھتالیس گھنٹوں پر مشتمل یہ سفر کراچی سے اتوار رات دس بجے شروع ہوا تھا
اور اب تک تقریباً اکیس سو کیلو میٹر طے کر کے ہم منگل رات دس بجے جگلوٹ
پہنچے تھے۔۔۔اور مزے کی بات یہ کہ ہماری اصل منزل اسکردو ہم سے مزید ایک دن
کی مسافت پر تھا۔۔۔
جگلوٹ شہر کے باہر ہی قراقرم ہائے وے پر واقع ایک ٹرک اڈے نما ڈرائیور ہوٹل
پر جیپ روکی۔۔۔ ارد گرد مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سنسان ماحول تھا۔۔۔
کاؤنٹر کے نیچے ایک خان صاحب سوئے ہوئے تھے۔۔ انھیں اٹھایا اور کمرے کا
پوچھا۔۔۔ یہ ہوٹل ہماری پہلی، آخری اور واحد امید تھا۔۔کمرہ خالی تو تھا۔۔
مگر اس کی چابی نہیں مل رہی تھی۔۔ خان صاحب آدھے جاگے، آدھے سوئے، چابیوں کا
ایک گچھا لے کر آَئے، اور ایک ایک کر کے ہر چابی آزمائی۔۔ایک چابی لگ گئی،
اور دروازہ کھل گیا۔۔ کمرہ ویسا ہی تھا جیسا کسی ٹرک اڈے کے ہوٹل کا ہوتا
ہے۔۔ہمارے لیے یہی بہت تھا۔۔۔
کمرے کا کرایہ طے کر کے ہم ہوٹل کے باہر گھاس میں لگے تخت پر بیٹھ گئے اور
کھانے کا آرڈر دیا۔۔۔ رات کافی ہو چکی تھی، اس لئے کھانے میں صرف سبزی اور
دال ہی تھی۔۔۔ہمارے لیے یہ بھی بہت تھا۔۔ پانچ سو کا کھانا، اور سات سو کا
ہوٹل ، چھ بندوں کے حساب سے کیا برا تھا۔۔
کھانا کھا کر کمرے میں گئے، موبائل اور کیمرہ چارجنگ پر لگایا، اور کپڑے بدل
کر پھر نیچے آگئے۔۔ہوٹل کے احاطے میں کئی درخت تھے، اور نیچے گھاس اگی ہوئی
تھی۔۔قریب ہی پانی کیلئے ایک رستہ کھودا ہوا تھا، جس سے ٹھنڈا بہتا پانی شور
کرتا ہوا گزر رہا تھا ۔۔ہوٹل کی سیڑھیاں کافی خطرناک تھیں۔۔سیڑھیوں اور پہلی
منزل کی کوئی دیوار نہیں تھی، بس چھوٹی سی راہداری تھی، اور پھر کمرہ۔۔ یعنی
اگر کمرے سے نکل کر چار قدم بے خیالی میں آگے بڑھائیں، تو سیدھا گراؤنڈ فلور
پر پہنچ جائیں گے۔۔۔البتہ ہم نے یہ شارٹ کٹ نہیں آزمایا اور سیڑھیوں سے اتر
کر نیچے باغ میں ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔۔۔ تاش کا دور شروع ہوا۔۔۔کچھ رنگ، کچھ
بلف، کچھ گپ شپ، کچھ گھر والوں سے آخری گفت و شنید، کچھ سوشل میڈیا پر چیک
ان۔۔۔کیونکہ اب یہاں سے آگے اسکردو تک نیٹ ورک کی امید نہیں تھی۔۔۔بارہ بجے
تک یہ مشغلہ جاری رہا، اور پھر واپس کمرے میں آگئے۔کمرے میں چار دیواری کے
علاوہ کچھ نا تھا۔۔۔اور ہمیں
کچھ چاہئے بھی نہیں تھا۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے، ہمیں اڑھتالیس گھنٹے گزر چکے
تھے۔۔ پچھلی رات ڈائیوو میں چند گھنٹے کی نیند کی تھی، اور اس سے پچھلی رات
گرین لائن میں چند گھنٹے نیند کی تھی۔۔۔تھکن سے چور، زمین پر چھ میٹریس
بچھائے، اور سب سو گئے۔۔۔
صبح اٹھے تو تھوڑی چہل پہل ہو چکی تھی۔۔ رات کے سناٹے میں یہ ہوٹل ایسے ہی
لگ رہا تھا جیسے جنگل کے بیچ کوئی ڈراؤنا سا آسیب زدہ ہوٹل ہو۔۔اب دن کی ہلکی
ہلکی روشنی میں اتنا ڈراؤنا بھی نہیں تھا۔برف جیسے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ
دھویا، کپڑے بدلے، انڈے پراٹھے اور چائے کا ناشتہ کیا، شاہراہ ریشم کے ریشم کی طرح بل کھاتے موڑ پر فوٹو سیشن کیا، اور قراقرم ہائے
وے پر بقیہ چند کیلومیٹر کا سفر شروع کر دیا۔۔۔جگلوٹ سے چند کیلومیٹر آگے
ہمیں شاہراہ قراقرم کو خیرباد کہنا تھا، اور گلگت اسکردو روڈ پر آجانا
تھا۔۔۔
جگلوٹ ایک منفرداور تاریخی حیثیت کا شہر ہے۔۔ یہاں دنیا کے تین عظیم الشان
پہاڑی سلسلے اور دو دریا ملتے ہیں۔۔۔ جگلوٹ سے نکل کر کچھ کیلومیٹر آگے جاتے
ہیں تو ایک جنکشن آتا ہے۔۔۔یہ وہ ویو پوائنٹ ہے جہاں سے یہ تین پہاڑی سلسلے
بیک وقت نظر آتے ہیں۔۔۔ دائیں جانب سلسلہ کوہ ہمالیہ، سامنے سلسلہ کوہ
قراقرم، اور بائیں جانب سلسلہ کوہ ہندوکش ہے، جو اس مقام پر باہم ملتے
ہیں۔۔۔اور نیچے دریائے سندھ دریائے گلگت سے ملتا ہے۔۔۔ان دو دریاؤں کے ملنے
والے مقام کے بارے میں لوک داستانیں مشہور ہے کہ یہاں جنات اور پریاں نہانے
آتے ہیں۔۔۔ جنات سے تو ہمیں کوئی غرض نہیں تھی، ہاں پریاں دیکھنے کی کافی
کوشش کی، لیکن کچھ نظر نا آیا۔۔۔البتہ پٹھان ٹرک ڈرائیور اپنے اپنے ٹرک نہلا
رہے تھے۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سنو لیپرڈ یعنی 'برفانی چیتے' اور
مارخور پہاڑوں سے اتر کر پانی پینے آتے ہیں۔۔۔لیکن ہمیں وہ بھی نظر نہیں
آئے۔۔۔
![]() |
سد پارہ جھیل |
پہاڑوں کے درمیان ہمارا سفر جاری تھا۔۔۔ ان پہاڑوں میں زمرد(ایمیرلڈ)، یاقوت
(روبی) اور زرقون وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔۔۔ہماری دائیں جانب پہاڑوں پر کوئی
چھوٹی مخلوق رینگتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔ فدا بھائی نے بتایا کہ یہ یہاں کے
مقامی لوگ ہیں جو ان پہاڑوں سے قیمتی پتھر نکالتے ہیں۔۔۔پہاڑوں پر چڑھ کر رسے
باندھ کر، ان رسوں سے لٹک کر چھوٹے چھوٹے غار بنا کر ان میں رہتے تھے۔۔۔غار
کیا تھے، چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے، جن میں انسان کھڑا بھی نا ہو سکے۔۔۔کھدائی
کیلئے چھوٹے چارجز لگا کر بلاسٹ کرتے، اور پھر پتھر توڑ کر ان میں سے قیمتی
پتھر تلاش کرتے۔۔۔ بہت خطرناک قسم کا ذریعہ معاش تھا۔۔
چند کیلو میٹر آگے جا کر ہمارا شاہراہ قراقرم پر سفر ختم ہو گیا اور عالم پل
سے ہم اسکردو کیلئے مختص رستے پر چلے گئے۔۔۔راستے میں کئی مقامات پر تعمیراتی
کام کی وجہ سے رکنا پڑا۔۔۔یہ رکنے، چلنے کا سلسلہ اسکردو تک یونہی چلتا
رہا۔۔۔کہیں آدھے گھنٹے میں رستہ کھل گیا، اور کہیں پانچ گھنٹے بھی انتظار
کرنا پڑا۔۔۔ شلوار قمیض میں ملبوس سینکڑوں لوگوں کے درمیان ہم اکلوتے جینز ٹی
شرٹ والے تھے۔۔سونے پہ سہاگہ، ہم نے سردی اور برف کے پیش نظر فوجیوں والے ایک
ایک کلو کے بوٹ اورتین تین کلو کے برفانی جیکٹ بھی پہن رکھے تھے۔۔۔ ہر رکاوٹ
پر ارد گرد کے مقامی لوگوں کا ہجوم ہوتا اور ہم سب کی توجہ کا مرکز
ہوتے۔۔۔
شام کے وقت ایک موڑ پر پہنچے تو آگے کام جاری تھا، اور رستہ بند تھا۔۔۔
بلاسٹنگ کی وجہ سے کافی بڑے بڑے پتھر سڑک کے بیچ میں گرے ہوئے تھے، جنھیں
ہٹانے کیلئے موجود مشینری ناکافی تھی۔۔ لہذا قریبی شہر سے مزید ہیوی مشینری
منگوائی جا رہی تھی۔۔۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہاں
ہمیں کم سے کم بھی تین، چار گھنٹے رکنا پڑے گا۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارے
پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جمع ہو گئی۔۔۔ یہاں ہماری ملاقات ایک آسٹریلین
بائیکر سے ہوئی جو اسکردو جا رہا تھا۔۔ ہمارے علاوہ شاید وہ اکیلا سیاح تھا،
اور باقی سینکڑوں کی تعداد میں موجود سب لوگ مقامی تھے۔۔جہاں مقامی لوگ اس
تعمیراتی کام کی وجہ سے اس رکاوٹ پر پریشان تھے، وہاں ہم پانچ خوار، جیپ سے
چادر نکال کر سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھ کر پتے کھیلنے میں مگن تھے۔۔۔ تھوڑی دیر
گزری کہ ایک ایک کر کے کئی لوگ ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے اور تقریباً آدھا
گھنٹا گزرنے کے بعد ہمارے گرد ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا، جو بڑے شوق سے ہمیں
'رنگ' کھیلتا دیکھ رہا تھا۔۔۔ ہم چونکہ اتنے بڑے ہجوم کا مرکز بنے ہوئے تھے،
سو آتی جاتی آرمی کی گاڑیاں بھی ہمیں رک کر دیکھتیں، اور سلام کر
تیں۔۔۔
یہ چلنے رکنے کا سلسلہ جاری رہا اور ہم بمشکل رات نو بجے اسکردو میں داخل
ہونے کو تھے کہ اسکردو کیڈٹ کالج کے مین گیٹ کے سامنے ہماری جیپ کا ٹائر
پنکچر ہو گیا ۔۔۔چاروں طرف مکمل خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔ہمارے پاس
اسپئیر ٹائر تو تھا، لیکن جب جیک نکال کر لگانے لگے، تو پتہ چلا کہ ہائیڈرولک
فلیوڈ لیک ہو چکا ہے، اور اب جیک ناکارہ ہے۔۔۔اب ہم ہر آتی گاڑی کو ہاتھ دے
کر روکتے، اور ان سے جیک کا پوچھتے۔۔۔ آخر کار، ایک مہربان ڈرائیور نے جیک
دیا، اور ٹائر بدل کر ہم پھر سے آگے بڑھے۔۔۔یہ ہمارے سفر کا پہلا پنکچر تھا،
اور ابھی دو مزید پنکچر ہمارے منتظر تھے۔۔۔
اسکردو میں داخل ہوئے، تو گیارہ بج چکے تھے، لیکن ہماری توقع کے خلاف، شہر
جاگ رہا تھا۔۔۔بھوک کی شدت نے مجبور کیا کہ پہلے کچھ کھایا جائے، اور رہنے کا
بندوبست اس کے بعد کیا جائے۔۔۔فدا بھائی کے کسی جاننے والے نے اسکردو سٹی ان
ریسٹورنٹ کا بتایا اور ہم وہاں کھانے چلے گئے۔۔۔یہاں کے ذائقے دار کھانے نے
ہماری ساری تھکن اتار دی، اور ہم پھر سے تازہ دم ہو کر رہائش کا بندوبست کرنے
نکل پڑے۔۔۔
اسکردو میں ہمارا تین دن قیام کا ارادہ تھا۔۔ اسلئے ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس ایسا
چاہئے تھا، جہاں بنیادی سہولیات بھی ہوں، اور شہر سے زیادہ دور بھی نا ہو۔۔۔
کئی ہوٹل گھومے۔۔کچھ بجٹ سے باہر تھے، کچھ شہر سے۔۔۔ کسی میں سناٹا بہت تھا
کہ بھوت بنگلے کا گمان ہوتا تھا، تو کسی میں پارکنگ نہیں تھی۔۔۔زیادہ ہوٹل
ایسے تھے جن میں چار بندوں سے زیادہ کا کمرہ نہ تھا، جبکہ ہمیں چھ بندوں والا
کمرہ چاہئے تھا۔۔بالآخر فدا بھائی کے جاننے والے کے توسط سے المدینہ گیسٹ
ہاؤس ملا۔۔۔ ریٹ مناسب، کمرہ کشادہ، اور پارکنگ کی سہولت موجود تھی۔۔سو، یہاں
ڈیرہ ڈال دیا۔۔۔ یہ ہماری منزل تھی، اور اس تک پہنچنے میں ہمیں پورے تین دن
یعنی بہتر گھنٹے لگے تھے، جس میں سے آٹھ گھںٹے ہوٹل میں کمرہ لے کر سوئے تھے،
جبکہ بقیہ چونسٹھ گھنٹے مسلسل سفر میں گزرے تھے۔۔۔
پہلا دن۔۔۔گیارہ اپریل۔۔۔جمعرات
اسکردو میں لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ تھی۔۔۔بہت زیادہ سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ
ہمارے علاقے میں رات سات بجے سے صبح سات تک بجلی نہیں ہوتی تھی۔۔۔صبح سات بجے
لائٹ آتی، اور ہم گیسٹ ہاؤس سے نکل جاتے۔۔۔رات کو سات، آٹھ بجے جب ہم واپس
آتے، تو لائٹ جا چکی ہوتی۔۔۔ موسم کے حساب سے رات کو پنکھے وغیرہ کی ضرورت تو
نہ تھی، لیکن ہمارے لئے بجلی کا سب سے اہم استعمال موبائل اور کیمرہ چارج
کرنا ہوتا تھا۔۔۔ ہم نے مینیجر سے بات کی اور رات کو ایک لیٹر پٹرول منگوا
لیا اور جنریٹر پر اپنے موبائل چارج کیے۔۔ہمارے سونے سے قبل ہی پٹرول ختم اور
جنریٹر بند ہو چکا تھا ۔اگلی رات ہم نے دو لیٹر پٹرول منگوایا، اور اس سے
اگلی رات ڈھائی لیٹر۔۔۔
پہلے دن صبح آٹھ بجے اٹھے۔ یہ گیارہ اپریل کی صبح تھی۔ ناشتے کیلئے مختلف
ہوٹل گھومتے پھرتے یادگار چوک کے پاس ایک ہوٹل پر پہنچے، جس میں پراٹھہ بنانے
والا بندہ کراچی کا تھا۔۔ آملیٹ، پراٹھے اور گرم گرم چائے کا ناشتہ کیا۔۔۔اس
ہوٹل کے ناشتے میں اتنا مزہ آیا کہ اگلے تین دن ہم یہیں ناشتہ کرتے
رہے۔۔۔
آج کے پلان کے مطابق ہمیں شگر جانا تھا اور اسی ارادے سے ہم نے رخت سفر
باندھا۔۔۔جیپ چلتی رہی، گپ شپ ہوتی رہی، فوٹوگرافی چلتی رہی۔۔۔یہ اپریل کا
مہینہ تھا اور چیری بلوسم کا موسم تھا۔۔۔ چیری کے درختوں نے پورے اسکردو کو
سرخ و سفید کر دیا تھا۔۔۔سڑک کے دونوں کنارے قطار در قطار لگے چیری کے سرخ
اور سفید درخت انوکھا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔جب ہوا چلتی تو سفید پتے درختوں
سے گرتے، اور پوری سڑک پر پتیوں کی چادر بچھ جاتی۔۔۔ان درختوں، پھولوں، اور
پتیوں کا قدرتی حسن، نا کسی کیمرے کی آنکھ محسوس کر سکتی ہے، نا الفاظ بیان
کر سکتے ہیں۔۔۔بھلا انسانی آنکھ اور کیمرے کی آنکھ کا کیا موازنہ۔۔۔یہ حسن
دیکھنے سے زیادہ محسوس کیے جانے کا متقاضی تھا۔۔۔اور کیمرے کی آنکھ میں احساس
کہاں سے لایا جائے۔۔۔
اسکردو سے باہر نکل کر ہم شگر کو جانے والا رستہ بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے،
اسکردو کارگل روڈ پر کافی آگے نکل گئے۔۔۔اب پھر سے پیچھے جانے کے بجائے ہم نے
منٹھوکا آبشار کو اپنی نئی منزل بنایا۔۔۔ کافی دیر تک سفر کرنے کے باوجود جب
منٹھوکا آبشار نہیں آیا، تو مقامی لوگوں سے دریافت کیا، تو پتہ چلا کہ
منٹھوکا جانے والا رستہ بھی ہم کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔۔۔ اب ہماری تیسری
منزل اسکردو کے ضلع کھرمنگ میں واقع خاموش آبشار تھی۔۔ خاموش آبشار اسکردو
کارگل روڈ پر بارڈر سے محض تیس کیلومیٹر دور ہے۔۔۔
پچھلی غلطیوں سے اتنا سیکھ لیا تھا کہ اب ہر گزرتے بندے سے خاموش آبشار کا
پوچھنے لگے۔۔۔ پتہ چلا کہ اب ہم اپنی منزل سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر
ہیں۔۔۔پانچ منٹ بعد پھر رستہ پوچھا، پتہ چلا اب بھی پانچ منٹ دور ہے۔۔۔ یہ
سلسلہ چلتا گیا۔۔ وقت جیسے تھم سا گیا ہو، کئی کیلومیٹر سفر کرنے کے باوجود،
جب بھی کسی راہگیر سے خاموش آبشار کا پوچھتے، تو جواب ہوتا، بس پانچ منٹ آگے
ہے۔۔۔ ناجانے ان کا وقت سست روی کا شکار تھا، یا ہماری گھڑیاں تیز تھیں۔۔
خیر، کئی کیلومیٹر کا سفر کرتے رہے، اور ہر موڑ پر یہ گمان ہوتا کہ بس اب آیا
آبشار۔۔۔آخر کار، ایک موڑ آیا، اور ساتھ ہی پانی گرنے کی آواز آنا شروع
ہوئی۔۔۔خاموش آبشار خاموش ہرگز نہیں تھا۔۔۔
پتھریلی چٹانوں سے گرتا پانی، اور نیچے کچھ جگہوں پر پڑی برف، جو اب تک
پگھلی نا تھی، اور ارد گرد سناٹا۔۔۔یہاں کوئی ہوٹل، دکان وغیرہ نہ تھی، اور
اس پورے علاقے میں ہم چھ بندوں کے علاوہ اور کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔
آبشار کے پانی اور برف سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دو گھنٹے گزر گئے، جب ہم نے
واپسی کا ارادہ کیا۔۔۔ یہ عمر، وقت، راستہ۔۔۔گزرتا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں،
سفر کا رہا۔۔۔ادھر کا ہی ہوں نا، ادھر کا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا
رہا۔۔۔
پہلا دن۔۔۔گیارہ اپریل۔۔۔جمعرات
اب ہماری منزل منٹھوکا آبشار تھی۔۔۔منٹھوکا آبشار پر داخلے کی فیس تیس روپے
فی کس تھی۔۔۔یہ بھی خوب کاروبار تھا۔۔۔ قدرت کے بنائے گئے قابل دید مقام کے
گرد چار دیواری لگا دو، اور ہر آنے والے سے داخلہ فیس وصول کرو۔۔یہاں ہمارے
علاوہ دیگر کچھ سیاح بھی موجود تھے، اور قریب ہی ایک ریسٹورنٹ بھی بنا ہوا
تھا۔۔۔آبشار سے گرتا پانی ایک ندی کی صورت نیچے بہہ رہا تھا اور اس کے اوپر
ایک لکڑی کا کچا پل بنا ہوا تھا، جس کو عبور کر کے آبشار تک جایا جا سکتا
تھا۔۔۔یہاں آبشار سے گرتے پانی میں ہم بھی نہائے، اور نیچے ندی میں ہماری جیپ
نے بھی نہایا۔۔۔چند گھنٹے یہاں گزارے اور پھر واپس اسکردو کی طرف روانہ ہو
گئے۔۔۔
اس پورے سفر میں ہمارا یہ معمول رہا تھا کہ صبح ناشتہ کر کے گھومنے پھرنے
نکلتے، اور رات کو واپس آکر رات کا کھانا کھاتے۔۔۔اس دوران ہلکی پھلکی
ریفریشمنٹ پر ہی گزارہ ہوتا۔۔۔جب ہم اسکردو پہنچے تو بھوک سے برا حال
تھا۔۔سو، سیدھا دیوان خاص ہوٹل پہنچے۔۔۔دیوان خاص اسکردو کا ایک مشہور ہوٹل
ہے اور ہم نے اس کی تعریف بہت سنی تھی، آزمائش شرط تھی۔۔۔ یہاں کی ایک مشہور
مقامی ڈش 'چکن مسکوٹ' ہے، جو پسے ہوئے بادام اور اخروٹ میں بنائی جاتی
ہے۔۔۔بادام کی حد تک تو ٹھیک تھا، لیکن اخروت کی وجہ سے تھوڑی کڑواہٹ محسوس
ہوئی۔۔۔ ہمیں یہ ڈش بس مناسب ہی لگی، اور ہمارا زیادہ فوکس کڑاھی پر
رہا۔۔کھانا کھا کر واپس المدینہ گیسٹ ہاؤس آئے، اور اپنے دم توڑتے موبائل فون
اور کیمرے چارجنگ پر لگا کر کچھ دیر گپ شپ کرتے کرتے سو گئے۔۔۔
گیسٹ ہاؤس کے گراؤنڈ فلور پر، سیڑھیوں کے پاس راہداری میں بلتستان کے مقامی
جانور، پہاڑی بکرے کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔۔۔اس پہاڑی بکرے نے ہر بار سیڑھیاں
اترتے چڑھتے ہماری چیخیں نکلوائیں۔۔خاص طور پر رات کو جنریٹر بند ہونے کے بعد
جب بھی کسی کام سے نیچے اترے، اندھیرے میں اس سے ضرور ٹکرائے ہیں۔۔۔
دوسرا دن۔۔۔بارہ اپریل۔۔۔جمعہ
بارہ اپریل کی صبح ہمارے ذہن میں کچھ دھندھلی سی ہے۔۔وجہ بڑی دلچسپ ہے۔۔۔ آج
ستبمر کے مہینے میں جب ہم یہ سب لکھ رہے ہیں، تو ہمارےسامنے موبائل میں گوگل
میپس کھلا ہوا ہے، اور ہم اپنی ٹائم لائن میں اپریل کا فلٹر لگا کر نقشے کی
مدد سے وقت اور جگہ لکھ رہے ہیں۔۔۔ گوگل میپس کے مطابق بارہ اپریل کا پورا دن
ہم نے گیسٹ ہاؤس میں گزارا تھا۔۔۔یہ دیکھ کر ایک لمحے کو تو ہم چونک
گئے۔۔۔پھر دماغ پہ زور دیا تو ساری کہانی یاد آئی۔۔۔در اصل گیارہ اپریل کی
رات کھانا کھا کر واپس آئے، تو گیسٹ ہاؤس میں لائٹ گئی ہوئی تھی۔۔ باتھ روم
میں موبائل کی ٹارچ لائٹ ساتھ لے جانے کی وجہ سے، موبائل نے پانی سے بھری
بالٹی میں ایک غوطہ کھایا تھا۔۔ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر ہم نے اس کی بیٹری
نکال دی اور ساری رات بند رکھا۔۔۔ صبح دس بجے، اسی کراچی والے ناشتے کے ہوٹل
سے ناشتہ کیا اور اس کے سامنے سودا سلف کی دکان پر چلے گئے۔۔۔دکان والے سے
ہمارا مکالمہ کچھ یوں ہوا۔۔۔چاول چاہئے۔۔۔کون سے والے۔۔۔جو سب سے سستے
ہوں۔۔۔کتنے کلو چاہئے۔۔۔ہم نے جیب سے موبائل نکالا، اور کہا، اتنے کہ یہ
موبائل اس میں ڈوب جائے۔۔۔ وہ سمجھا شاید مذاق کر رہے ہیں۔۔۔پھر ہم نے پانی
کی ایک بوتل کو کاٹ کر اس میں موبائل ڈالا، اور اسے کہا کہ اب اس بوتل میں
چاول ڈالتے جاؤ جب تک موبائل مکمل طور پر چاولوں میں ڈوب نہیں جاتا۔۔۔اب صبح
کے دس بجے سے، رات کے دس تک ہمارا موبائل چاولوں میں ڈوبا رہا، اور رات کو جب
بیٹری دوبارہ ڈال کر اسے اسٹارٹ کیا، تو تب سے اب تک کوئی شکایت نہیں
ہوئی۔۔۔
ناشتے کے بعد دس بجے ہماری جیپ سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی شگر کی جانب رواں
دواں تھی۔۔۔رستے میں باب شگر پر فوٹو گرافی کی اور پھر صحرا پار کر کے شگر کی
طرف بڑھ گئے۔۔شگر میں دیکھنے کے قابل ایک پرانی تاریخی مسجد تھی، اور ایک
قلعہ شگر تھا۔۔
یہ قلعہ سترھویں صدی میں یہاں کے مقامی راجہ نے تعمیر کروایا تھا۔آغا خان
کلچرل سروس پاکستان نے اس قلعہ کی بحالی کا کام کیا جس میں تقریباً پانچ سال
لگے اور پھر اس قلعہ کا انتظام سرینا ہوٹلز کے سپرد کر دیا گیا، جنھوں نے اسے
میوزیم اور لگژری ہوٹل میں تبدیل کر دیا۔ قلعہ میں راجہ اور اس کے خاندان کے
حوالے سے کافی تاریخی اشیاء موجود تھیں۔۔جو کسی زمانے میں راجہ کا شبستان
تھا، اب وہ سرینا ہوٹل کا ایک ہیریٹیج سوئٹ ہے، جو بالکل اسی پرانی طرز پر
ہے، اس چھوٹے سے کمرے کا ایک رات کا کرایہ تقریباً پچیس ہزار روپے
ہے۔۔۔
شگر فورٹ کے گائیڈ صاحب، بجائے اردو میں سمجھانے کے، انگلش کا رٹا رٹایا
پیراگراف پڑھ دیتے۔۔ ان کی انگریزی نا سمجھتے ہوئے، ہم ان سے اردو میں پھر سے
پوچھتے، تو وہ تھوڑا بتا کر، پھر سے انگریزی پر آجاتے۔۔۔انھوں نے اپنا ایک
خود ساختہ ایکسنٹ بنایا ہوا تھا، جس میں وہ روزمرہ کے الفاظ بھی کچھ اس ادا
سے بولتے کہ شگر فورٹ، شکر گوٹھ بن کر نکلتا۔۔۔
قلعے سے فارغ ہو کر ہم امبوڑک مسجد گئے۔۔۔یہ چھ سو سال پرانی مسجد،
ایک کشمیری بزرگ سید علی ہمدانی نے بنوائی تھی۔۔سید علی ہمدانی، شاہ ہمدان اور
امیرِ کبیر کے القاب سے مشہور ہیں۔۔یہ دراصل فارسی نسل کے صوفی بزرگ تھے، جو
ہمدان سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔دین اسلام کی تبلیغ کی خاطر کئی ممالک کا سفر
کیا۔۔۔آپ اپنے ہمراہ کئی مبلغ اور ہنر مند افراد کا قافلہ لے کر کشمیر کی طرف
روانہ ہوئے، تو رستے میں شگر میں قیام کیا اور اس مسجد کی بنیاد
رکھی۔۔۔کشمیر، لداخ اور بلتستان کے علاقوں میں اسلام پھیلانے کا سہرا بھی
انھی کے سر ہے۔۔۔
امبوڑک مسجد کی زیارت کر کے ہم شگر سے نکل آئے۔۔۔اب ہماری اگلی منزل کولڈ
ڈیزرٹ تھا۔۔۔کولڈ ڈیزرٹ، یعنی سرد صحرا، دنیا کا بلند ترین صحرا ہے جس کا نام
کٹپنا صحرا ہے۔۔۔ اسی صحرا میں ایک جھیل بھی ہے جو کٹپنا جھیل کے نام سے
مشہور ہے۔۔۔۔یہ جھیل ہمیں بس مناسب ہی لگی۔۔۔ارد گرد کے پہاڑوں اور سبزہ
زاروں کا عکس اس کے پانی پر اچھا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔یہاں ریت کے چھوٹے
چھوٹے پہاڑوں پر جیپ دوڑائی، اور فوٹو سیشن کر کے اپنی اگلی منزل سدپارہ جھیل
کی طرف روانہ ہوگئے۔۔۔
سدپارہ جھیل کافی خوبصورت ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔یہ جھیل سڑک سے
کافی نیچے ہے لیکن نیچے تک جانے کا کوئی رستہ نہیں ہے۔۔۔پہلے یہ جھیل آزاد
ہوا کرتی تھی اور نیچے جانے کا رستہ بھی ہوا کرتا تھا۔۔۔پھر یہاں ڈیم بنا دیا
گیا، اور جھیل کو خاردار تاروں کی جیل میں قید کر دیا گیا۔۔۔ہم یہاں پہنچے تو
شام ہو چکی تھی، اور کافی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔۔ اوپر سے ہی اس خوبصورت جھیل
کا نظارہ کیا اور کچھ دیر یہاں فوٹو سیشن کیا، اور پھر واپس اسکردو
آگئے۔۔۔
آج ہم اندھیرا چھانے سے پہلے ہی واپس آگئے تھے، اسلئے بازار گھومنے کا ارادہ
تھا۔۔۔لیکن پہلے کچھ کھانا تھا۔۔۔کراچی سے جب ہمارے سفر کا آغاز ہوا تھا، تب
سے اب تک ہم دیسی کھانا ہی کھا رہے تھے، اور فاسٹ فوڈ کو مس کر رہے تھے۔۔۔ آج
چونکہ وقت سے پہلے واپس آگئے تھے، اسلئے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ڈھونڈھنے نکل
پڑے۔۔۔اسکردو میں فاسٹ فوڈ کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔۔ فاسٹ فوڈ کے نام پر
ہمیں کافی ڈھونڈنے کے بعد جو ایک ریسٹورنٹ ملا، وہ کرسپی کیو تھا۔۔گوگل میپ
پر ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں پہنچے۔۔زنگر برگر اور بروسٹ کا آرڈر دیا، موبائل
چارجنگ پر لگائے، اوربیٹھ گئے۔۔۔ اور لائٹ چلی گئی۔۔زنگر برگر کراچی کے لحاظ
سے مناسب تھا مگر اسکردو کے لحاظ سے کافی اچھا تھا۔۔ یوں دیسی علاقے میں بھی
پردیسی خوراک مل ہی گئی۔۔۔
کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو سورج غروب ہونے لگا تھا۔۔۔ہم نے ابھی تک اسکردو
شہر جیپ میں بیٹھ کر سرسری طور پر ہی دیکھا تھا۔۔۔آج ہم اسکردو مین بازار میں
جیپ سے اتر گئے اور پیدل یاترا شروع کر دی۔۔مختلف بازار گھومے، ہینڈیکرافٹس
کی دکانیں دیکھیں، اور مختلف دستکاری کے نمونے دیکھے۔۔۔ایک ڈیڑھ گھنٹہ بلا
مقصد گھومتے گھماتے رہے، اور پھر ایک بیکری نظر آئی، تو میٹھا کھانے کا دل ہو
گیا۔۔۔ایک کیک پسند آیا، وہیں بیٹھ کر چاروں نے کھایا، اور پھر بے مقصد آوارہ
گردی جاری رہی۔۔۔آخر کار، جب تھک گئے، تو ایک ٹیکسی لے کر واپس گیسٹ ہاؤس
آگئے۔۔۔
تیسرا دن۔۔۔تیرہ اپریل۔۔۔ہفتہ
صبح دس بجے اٹھے اور ناشتے کیلئے اسی ہوٹل کا رخ کیا۔۔۔آج ہم گیسٹ ہاؤس سے
بمع ساز و سامان نکلے تھے، کہ واپسی ہمیں اسکردو نہیں آنا تھا، بلکہ اپر
کچورہ اور شنگریلا سے فارغ ہو کر سیدھے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔۔۔
ناشتہ کر کے جب کچورہ کی طرف روانہ ہوئے تو گیارہ بجے تھے۔۔۔لوئر کچورہ ، جو
کہ شنگریلا کے نام سے مشہور ہے، اس کے سامنے سے گزر کر ہمیں مزید اوپر جانا
تھا۔۔یہاں سے پہاڑی کچا رستہ شروع ہو گیا جو اپر کچورہ جھیل کو جاتا
تھا۔۔۔بارہ بجے کے قریب ایک جگہ پہنچ کر جیپ رک گئی۔۔۔یہاں سے آگے تھوڑا سا
پیدل رستہ تھا۔۔۔ہم یہاں پہنچے تو آسمان نے بارش کی بوندوں سے استقبال
کیا۔۔۔ ارد گرد کھیتوں اور
کچھ کچے مکانات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔پہلے تو ہم سمجھے کہ شاید
کسی غلط جگہ آگئے ہیں، لیکن مقامی لوگوں نے نیچے کی طرف جاتے ایک رستے کی طرف
اشارہ کیا، اور بتایا کہ تھوڑا نیچے اتر کر جھیل تک پہنچ جائیں گے۔۔۔کھیتوں
کے بیچ بنی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے ہم نیچے اترنے لگے۔۔نیچے پہنچ
کر جب درختوں کی اوٹ سے نکلے، تو ہماری آنکھوں نے جو منظر دیکھا، وہ دیکھنے
کے قابل تھا۔۔۔خالص، قدرتی حسن سے بھرپور خوبصورت سی جھیل ہمارے سامنے تھی،
جس کے صاف شفاف پانی پر ارد گرد کے پہاڑوں کا عکس دکھائی دے رہا تھا، اور
بارش کے قطرے، جب اس عکس پر پڑتے، تو لگتا جیسے پہاڑ جھوم رہے ہیں۔۔۔اس پورے
علاقے میں چند مقامی افراد کے علاوہ سیاح ہم اکیلے ہی تھے۔۔۔جھیل کے ایک
کنارے پر چپو سے چلنے والی کچھ کشتیاں تھیں، اور پاس ہی کشتی کا مالک اپنے
چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔۔وہ وہیں پیچھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی
میں رہتا تھا۔۔ کشتی بہت چھوٹی سی تھی اور کافی خطرناک تھی۔۔لمبائی مشکل سے
دس فٹ، اور چوڑائی ڈھائی تین فٹ ہوگی۔۔۔ہم نے کشتی والے سے بات کی، اور کشتی
میں بیٹھ کر جھیل کا دورہ شروع کیا۔۔۔
اپر کچورہ جھیل کی گہرائی تقریباً دو سو تیس فٹ ہے۔۔۔کشتی والے صاحب نے
احتیاطی اور حفاظتی تدابیر کے پیش نظر ، کشتی میں بیٹھنے سے پہلے ہمیں اس کی
گہرائی بیس سے تیس فٹ بتائی۔۔ پھر جیسے جیسے کشتی کنارے سے دور ہوتی گئی،
کشتی والا جھیل کی گہرائی بڑھاتاچلا گیا، اور جب ہم واپسی صحیح سلامت کنارے
پر اتر گئے، تو اس نے اس کی اصل گہرائی بتائی جو کہ دو سو تیس فٹ
تھی۔۔۔
کشتی جب جھیل کے عین وسط میں پہنچ گئی تو ان صاحب نے ناجانے کیا سوچتے ہوئے
چپو چلانا چھوڑ دیا اور کشتی روک کر ایک واقعہ سنایا۔۔۔آج سے چند ماہ قبل
پنجاب کے کسی کالج کی چار لڑکیاں اکیلے سیاحت کیلئے آئی تھیں اور اس جھیل میں
عین اسی مقام پر ان کی کشتی ڈوب گئی تھی۔۔۔ہمیں حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔۔۔ڈرتے
ڈرتے پوچھا، پھر کیا ہوا۔۔۔پتہ چلا کہ اس دور دراز علاقے میں ریسکیو کا
انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اب تک ان کی لاشیں نہیں نکالی جا سکی تھیں۔۔۔بلاشبہ
یہ جگہ انتہائی حسین تھی۔۔۔مگر یہ ظالم جان لیوا حسن، کبھی ایسے جلوے بھی
دکھاتا ہے، یہ سوچ کر کچھ دیر ہم بھی سہمے سہمے رہے۔۔۔
ہم نے جھیل میں مچھلی پکڑنے کی ناکام کوشش بھی کی، اور یوں اس خوبصورت جگہ
پر تین گھنٹے بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔۔
اسکردو کا رومانوی موسم، جھیل کی قدرتی خوبصورتی، اور ہلکی ہلکی بارش کی
برستی بوندیں، اور ان سے پانی کی سطح پر بننے والی چھوٹی چھوٹی لہریں، پس
منظر میں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ، اور جھیل میں دکھائی دیتا ان پہاڑوں کا
عکس۔۔۔اوپر بادلوں کی اوٹ میں گزرتا پی۔آئی۔اے کا فوکر طیارہ۔۔۔دھند اور
بادلوں کے بیچ سے نکلتی ہوئی سورج کی کرنیں، جو پانی پر اپنا عکس چھوڑ رہی
تھیں۔۔۔گرم گرم چائے میں پڑتی بارش کی بوندیں، گرم چپس، جو سردی اور بارش کی
وجہ سے ٹھنڈے ہو گئے تھے، اور ساتھ پانی ملی ہوئی کیچپ۔۔۔اور ہم چار
خوار۔۔۔جو جھیل کی ایک جانب بنی پہاڑی پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے۔۔۔روح کو
تازگی بخشتا یہ منظر کچھ انوکھا ہی تھا۔۔۔یہ جھیل سیاحوں کی عدم توجہی کا
شکار ہے، اور ارد گرد کے باقی سیاحتی مقامات کی نسبت یہاں زیادہ سیاح نہیں
آتے، شاید یہی وجہ تھی کہ ہمیں یہ جگہ بہت پسند آئی۔۔۔بلا شبہ، یہ اس پورے
سفر کا سب سے بہترین لمحہ تھا۔۔۔دل کی پوچھو، تو اس جگہ سے جانے کا دل نہیں
کر رہا تھا۔۔۔لیکن نیچے لوئر کچورہ لیک، ہمارا انتظار کر رہی تھی۔۔
لوئر کچورہ لیک، جو شنگریلا لیک کے نام سے مشہور ہے، شنگریلا ریزورٹ کے اندر
واقع ہے۔۔تین سو روپے فی کس کے حساب سےانٹری فیس ادا کر کے ہم ریزورٹ میں
داخل ہوئے اور جیپ پارک کر کے جھیل کے نظاروں میں مشغول ہو گئے۔۔
جیمس ہلٹن نے اپنے ناول 'لوسٹ ہورائیزن' میں ایک جگہ کا ذکر کیا تھا، جہاں ۱۹۲۰
کے اوائل میں ایک ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہونے کے بعد ایک دریا کے
کنارےکریش لینڈنگ کرتا ہے۔ دریا کے کنارے آباد اس خوبصورت بستی کے مکین، اس
حادثے میں زندہ بچ جانے والے مسافرین کا استقبال کرتے ہیں، اور انھیں اس جنت
نظیر وادی کا دورہ کراتے ہیں۔۔اس مقام کا نام تبتی زبان میں شنگری-لا ہے، جس
کے معنی ہیں زمین پر جنت۔۔ ۱۹۵۰
کی دہائی میں جب جیمس ہلٹن کے ناول کی کہانی حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آئی،
اور اورینٹ ائیرویز کا جہاز جو اسکردو سے راولپنڈی جانے کیلئے اسکردو
ائیرپورٹ سے اڑا تھا، تین منٹ بعد اس کا انجن فیل ہو گیا اور اسے قریب ہی
واقع دریائے سندھ کے کنارے کریش لینڈنگ کرنا پڑی۔۔۔۔ جہاز میں سوار تین کرو
میمبرز اور گیارہ مسافرین اس حادثے میں بچ گئے۔۔ شنگریلا ریزورٹ نے یہ ہوائی
جہاز ڈیرھ سو روپے میں اورینٹ ائیرویز سے خرید لیا اور تین مہینوں کی مشقت کے
بعد اسے کریش سائٹ سے شنگریلا ریزورٹ لایا گیا۔۔۔اب یہ ایک کیفے ہے، اور ہم
نے بھی اس کا دورہ کیا۔۔۔
جھیل کے کنارے پانی کے اوپر چینی طرز تعمیر پر ایک ریسٹورنٹ بنا ہوا ہے، جس
کی سرخ چھت کی ڈیزائن ہی شنگریلا کا ٹریڈ مارک ہے۔۔۔ہم نے اس سفر کو کافی
بجٹڈ رکھا تھا، اور کھانے پینے کے معاملے میں جیب پر زیادہ بوجھ نہیں آنے دیا
تھا۔۔۔در اصل اس سب بچت کے پیچھے وجہ یہی تھی، کہ ہمیں اس ریسٹورنٹ میں ساری
کسر نکالنا تھی۔۔اور پھر یہی ہوا۔۔ہم نے اس ریسٹورنٹ میں عمدہ کھانا کھایا
اور عمدہ بل ادا کر کے فوٹو سیشن میں لگ گئے۔۔۔پگوڑا ریسٹورنٹ کا کھانا
مہنگا، لذیذ، اور ارد گرد کے ماحول اور جھیل پر ہونے کے باعث کافی اچھا معلوم
ہوا۔۔بارش بدستور جاری تھی، اور جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی
تھی۔۔۔
اسکردو سے واپسی
شنگریلا سے واپسی نکلے تو شام کے چھ ہو چکے تھے، بارش اب بھی جاری تھی۔۔کافی
سوچ بچار کے بعد ہم نے واپسی رات میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔رات میں چونکہ
تعمیراتی کام رکا ہوا ہوتا ہے، اس لئے یہ سفر آدھے وقت میں طے ہو جاتا ہے۔
ہماری بد قسمتی کہ کام جب چھ بجے ختم ہوا، تو آخری بلاسٹنگ کے نتیجے میں کافی
بڑے بڑے پتھر سڑک کے بیچ میں آگرے، جن کی وجہ سے رستہ بند ہو گیا تھا۔۔۔ ایک
طرف پہاڑ، دوسری طرف گہری کھائی، اور اس کے نیچے روانی سے بہتا دریا تھا۔۔۔
آگے رستہ بند تھا، اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کئی گھنٹوں کا کام
ہے۔۔۔باقی گاڑیوں کو رکتا دیکھ کر ہم نے بھی جیپ روک دی۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے
یہ گاڑیوں کی قطار کوئی ڈیڑھ دو کیلومیٹر تک پھیل گئی۔۔۔یہ تعمیراتی کام آرمی
کے زیر نگرانی کروایا جا رہا تھا۔۔۔اس رش میں تقریباً سو سے اوپر گاڑیاں
پھنسی ہوئی تھیں۔۔۔ لیکن مہمان ہونے کی وجہ سے ہمیں جو خاص عزت ملی تھی، وہ
کسی اور کو نہیں ملی۔۔۔اگر چہ آرمی کیمپ میں لگا پانی کا کولر ہر کسی کیلئے
کھلا تھا۔۔۔مگر ہمیں کراچی سے اتنا دور آنے والے سیاح ہونے کا اعزاز حاصل
تھا، لہذا ہمیں پانی کے ساتھ ساتھ چائے کی بھی پیشکش کی گئی۔۔۔
اندھیرے میں سڑک کے بیچ پاک آرمی کے تین جوان کھڑے تھے، جو اس سارے کام کی
نگرانی کر رہے تھے۔۔۔لوگ ان کے پاس جا کر پوچھ رہے تھے کہ رستہ کب تک کھلے
گا۔۔۔ ہم بھی دیکھا دیکھی ان کے پاس گئے اور رستے کا پوچھنے لگے۔۔۔ ہمارے
لباس سے ہمارا سیاح ہونا واضح تھا۔۔۔ ہم سے تعارف لیا گیا۔۔۔۔چاروں سعودیہ سے
آئے ہو۔۔۔واہ ۔۔۔ اچھا کراچی سے یہاں تک آئے ہو۔۔۔یار کراچی سے بہت لوگ آتے
ہیں ان علاقوں میں۔۔۔ ہمارا ایک ساتھی بھی آپ کے شہر سے ہے۔۔۔ابھی اندر آرام
کر رہا ہے کیمپ میں۔۔۔اور یوں گپ شپ چلتی رہی۔۔۔ ارد گرد لوگ جمع ہونا شروع
ہو گئے۔۔۔ رات کے اندھیرے میں بیسیوں لوگوں کے مجمع میں ہم چار سیاحوں کے
علاوہ سارے مقامی لوگ تھے۔۔۔۔ اب ہم اس ہجوم میں مہمان خصوصی تھے۔ کئی مقامی
افراد نے ہمارے اور پاک آرمی جوانوں کے ایک جیسے جوتے دیکھ کر ہم سے پوچھا
تھا کہ آپ بھی فوج میں ہیں۔۔۔نہیں جی، ہم تو موج میں ہیں بس۔۔۔کئی گھنٹے کھڑے
کھڑے گپ شپ ہوتی رہی اور پھر ہم اپنی جیپ میں واپس آگئے۔۔۔ ہماری جیپ لائن
میں کافی پیچھے تھی، کچھ دیر بعد جب وہ کراچی والا جوان باہر آیا اور اپنے
ساتھیوں سے اسے پتہ چلا کہ ان مسافروں میں ایک گروپ کراچی کا بھی ہے، تو وہ
لمبی لائن میں ہمیں ڈھونڈھتا ہوا ہماری جیپ تک خاص ملنےآیا۔۔۔ یہ عمر، وقت،
راستہ۔۔۔گزرتا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔ادھر کا ہی ہوں نا،
ادھر کا رہا۔۔۔سفر کا ہی تھا میں، سفر کا رہا۔۔۔
ان علاقوں میں تعینات پاک فوج کے جوانوں کی ملنساری، مہمان نوازی اور
دوستانہ رویہ دیکھ کر پاک فوج کیلئے دل میں موجود محبت اور بڑھ گئی۔۔ کوئی
چیک پوسٹ ایسی نا گزری ہوگی، جہاں ہم سے چائے پانی نا پوچھا گیا ہو۔۔۔ ہم نے
کراچی میں ہمیشہ ہر ناکے پر پولیس کو چائے پانی مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ یہاں
ہم سے چائے پانی کا پوچھا جا رہا تھا۔۔۔
چار گھنٹے انتظار کے بعد آخرکار رستہ کھلا اور ہمارے واپسی کے سفر کا صحیح
معنوں میں آغاز ہوا۔۔۔واپسی کا سفر رات میں کرنا خطرے سے خالی نہیں
تھا۔۔۔اگرچہ ہم تین دن پہلے انہی رستوں سے گزرے تھے، لیکن سورج کی روشنی
تھی۔۔۔اور ہم پہاڑ کی طرف تھے، اب رات کا اندھیرا تھا۔۔۔اور ہم کھائی والی
طرف تھے۔۔۔
چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ تھا۔۔۔پہاڑوں پر کچا پکا رستہ، جس کے
ایک طرف پہاڑ، اور دوسری طرف پزاروں فٹ گہری کھائی، اور نیچے روانی سے بہتا
دریا، اور دریا کا شور۔۔۔لینڈ سلائیڈنگ کا خوف، اور خطرناک موڑ، اور
چڑھائی۔۔۔ رات کی تاریکی میں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، اور اس خاموشی میں
دریا کا شور کافی خوفناک محسوس ہو رہا تھا۔۔۔اور جب سامنے سے کوئی ٹرک آتا،
تو اسے رستہ دینے کیلئے ہمیں بالکل کنارے پر ہونا پڑتا۔۔۔تھکن کے باوجود
واپسی کے سفر کا بیشتر حصہ ہم نے جاگتے ہوئے گزارا۔۔۔خدا خدا کر کے رات کے
چار بجے ہم جگلوٹ پہنچے۔۔۔آتے ہوئے جس ٹرک ہوٹل میں رکے تھے، اسی ہوٹل میں
رات گزاری، اور صبح گیارہ بجے ناشتہ کر کے پھر سے سفر کا آغاز کیا۔۔
اب ہم پھر سے شاہراہ قراقرم پر تھے، سفر اور وقفے وقفے سے چائے کے ہوٹل پر
رکنے کا سلسلہ جاری رہا اور ہم چلاس سے ہوتے ہوئے شام کو چھ بجے داسو پہنچے
اور پلاؤ اور بریانی کا لنچ کر کے پھر بشام کی طرف روانہ ہوئے۔۔بشام پہنچ کر
شاہراہ قراقرم کو خیر باد کہا اور سوات کی طرف جانے والی سڑک پر
آگئے۔۔۔
سوات جاتے ہوئے رستے میں شانگلہ ٹاپ سے گزرے تو دور نیچے سوات شہر رات کے
اندھیرے میں جگمگاتا ہوا نظر آیا۔۔۔یہاں آدھا گھنٹہ رک کر فوٹو سیشن کیا، اور
پھر سفر جاری رہا۔۔شانگلہ ٹاپ سے کچھ آگے ہی گئے تھے، کہ تیسری بار جیب کا
وہی ٹائر پنکچر ہو گیا۔۔۔ہمارا جیک خراب ہو چکا تھا۔۔۔ قریب سے کے پی کے
پولیس کی گاڑی گزری اور ہم سے پریشانی پوچھی۔۔ ہم نے بتایا تو انھوں نے وہیں
سڑک پر اپنی گاڑی روک کر ناکہ لگایا اور ہر گزرتی گاڑی سے جیک کا پوچھا۔۔۔
پھر ان باوردی پولیس اہلکاروں نے خود ہماری جیپ کا ٹائر بدلا۔۔۔جب ہم جیپ کے
اوپر سے ٹائر اتارنے لگے تو ہمیں منع کیا کہ آپ کیوں اپنے ہاتھ گندے کرتے
ہو۔۔ ہم اتار دیتے ہیں۔۔۔آپ مہمان ہو۔۔۔ اس سنسان سڑک پر، جہاں ہاتھ کو ہاتھ
نا سجھائی دے، ان کی مدد کے بغیر شاید پوری رات ہم وہیں پھنسے رہتے۔۔۔ جب وہ
ٹائر بدل چکے تو آپس میں مقامی زبان میں کچھ بات چیت کرتے رہے ۔۔ ہمیں جو لفظ
سمجھ آئے، وہ کچھ یوں تھے۔۔۔ سندھ پولیس۔۔۔کراچی۔۔۔۔کے پی کے پولیس۔۔۔۔ہم نے
جاتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا، اور سندھ پولیس کے حوالے سے تھوڑا دل ہلکا
کیا، اور ان کی تعریف کی، تو کہنے لگے، شکریہ کیسا۔۔۔۔ یہ تو پولیس کا فرض ہے
کہ آپ کی مدد کرے۔۔۔یہ جملہ ہم نے ہالی وڈ فلموں کے علاوہ زندگی میں پہلی بار
سنا تھا۔۔۔اگرچہ یہ عام سادہ سا رسمی جملہ ہو، لیکن اس وقت انھوں نے جس خلوص
سے ہماری مدد کی تھی، یہ ان کے عمل سے ظاہر تھا۔۔ اور یہ جملہ شاید باقیوں
کیلئے عام سا ہو، لیکن کراچی والے کیلئے پولیس کے منہ سے یہ جملہ سننا ناممکن
ہی تھا۔۔۔ بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر ہم نے فدا حسین سے پوچھا کہ وہ آپس میں
کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ ہم سمجھ تو گئے تھے، وہ یہی کہہ رہے تھے کہ یہ کراچی والے
ہیں، انھوں نے سندھ پولیس کو دیکھا ہے، اب یہ جا کر کے پی کے پولیس کی تعریف
کریں گے اور سب کو بتائیں گے کہ ہماری پولیس سندھ پولیس سے کتنی اچھی
ہے۔۔۔
سوات اور مالم جبہ
سوات پہنچے تو رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔۔ فدا بھائی ہمیں ایک فوڈ اسٹریٹ
لے گئے اور ہم 'جی قربان' ریسٹورنٹ میں کھانے کیلئے باہر کھلی فضا میں بیٹھ
گئے۔۔ ریسٹورنٹ کا مینیو بہت اچھا تھا، اور ہمارے لئے آرڈر کرنا مشکل ہو گیا
تھا۔۔ آپس میں صلاح مشورہ کر کے آخر کار چرسی تکے کیلئے سب کو راضی کیا اور
آرڈر دینے لگے۔۔ ویٹر نے بتایا کہ چرسی تکہ ختم ہو گیا ہے۔۔۔دوسرا آپشن دنبہ
کڑاھی تھا، بمشکل سب راضی ہوئے تو ویٹر نے بتایا، دنبہ کڑاھی بھی ختم
ہے۔۔۔ملائی بوٹی۔۔ ختم ہے، گولہ کباب۔۔۔ختم۔۔۔چکن کڑاھی کا آرڈر دیا۔۔ اور اس
کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔۔ہم جوش جوش میں کھلی فضا میں بیٹھ تو گئے تھے،
لیکن اب سردی کا احساس ہو رہا تھا۔۔ ہم سے چند قدموں کے فاصلے پر دریائے سوات
بہہ رہا تھا۔۔بہتے دریا کی آواز بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی لیکن سردی کی شدت
بھی بڑھنے لگی تھی۔۔ہم نے وہاں سے اٹھ کر ریسٹورنٹ کے اندر جا کر بیٹھنے کا
فیصلہ کیا اورپھر اندر ہی کھانا کھایا۔۔۔
یہاں ہمارا قیام 'پیس ہوٹل سوات' میں تھا۔۔اور یہ قیام فدا بھائی کی طرف سے
ہمارے لیے الوداعی تحفہ تھا۔۔۔ ہم چونکہ بجٹڈ ٹور کرتے ہیں، لہذا یہ غالباً
تھری اسٹار ہوٹل ہمارے بجٹ سے باہر تھا۔۔ کراچی سے نکلے ہوئے ہمیں ایک ہفتہ
ہو چکا تھا، اور اتنے دنوں سے ہم گرم پانی کی سہولت سے محروم تھے۔۔ آج کئی
دنوں بعد ہمیں گرم پانی میسر آیا تھا۔۔۔نہا کر تازہ دم ہوئے اور گپ شپ شروع
ہوئی۔۔۔اب اچانک یاد آیا کہ واپسی آتے ہوئے کچھ ضروری سامان خریدنا ہم بھول
گئے تھے۔۔۔فدا بھائی صبح سے مسلسل جیپ چلا رہے تھے، اس لئے انھیں پھر سے زحمت
دینا مناسب نا لگا، اور دو بندے اکیلے ہی پیدل نکل پڑے۔۔۔رات کافی ہو چکی تھی
اور کافی دکانیں بند ہو چکی تھیں۔۔۔چلتے چلتے بہت دور نکل گئے، لیکن کوئی
جنرل اسٹور نا ملا۔۔۔اب اتنا دور آنے کے بعد خالی ہاتھ واپسی جانے سے اچھا
تھا، مزید آگے جا کر مین بازار چلے جائیں۔۔چلنے کی ہمت نہیں تھی، لیکن سڑک
سنسان تھی، اور ٹیکسی رکشے کا نام و نشان بھی نا تھا۔۔۔ایک ٹرک والے سے لفٹ
مانگی، اور اس نے مین بازار کے قریب کہیں پہنچا دیا۔۔۔سامان لے کر ٹیکسی
ڈھونڈھی اور بڑی مشکل سے واپس ہوٹل تک پہنچے۔۔۔انجان شہر کی سنسان سڑکوں پر
آدھی رات کے وقت یہ آوارہ گردی بھی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔۔۔
صبح نو بجے اٹھ گئے، اور پلان کے مطابق ہمیں دس بجے مالم جبہ کیلئے نکلنا
تھا۔۔۔اب ایک اہم مسئلہ درپیش تھا، یہ پندرہ اپریل کی تاریخی صبح تھی، اور
چند گھنٹوں پہلے گیم آف تھرونز کے آٹھویں اور آخری سیزن کی پہلی قسط ریلیز
ہوئی تھی۔۔۔کچھ ہمیں دیکھنے کی جلدی بھی تھی، اور کچھ یہ ڈر بھی تھا کہ نا
دیکھنے کی صورت میں سوشل میڈیا کا استعمال مشکل ہو جائے گا۔۔۔ طے پایا کہ
مالم جبہ دو گھنٹے بعد جایا جائے، اور تب تک گیم آف تھرونز دیکھا جائے۔۔۔
انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی، سو پائیریٹڈ کاپی ڈاؤنلوڈ کی، اور بڑی اسکرین پر
گیم آف تھرونز دیکھا۔۔۔
ساڑھے بارہ بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور ریلیکس فوڈ پوائنٹ پر چائینیز لنچ
کر کے مالم جبہ کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔یہاں کافی سیاح آئے ہوئے تھے، اور یہ
ہمارے سفر کا پہلا مقام تھا، جہاں ہمارے علاوہ دیگر سیاح بڑی تعداد میں موجود
تھے۔۔۔ پہاڑی پر پڑی برف کافی حد تک پگھل چکی تھی اور وہاں سبزہ نظر آرہا
تھا۔۔ سبزےاور برف کے ملاپ سے منظر کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔۔ یہاں چئیرلفٹ
پر بیٹھے، اور آئس اسکیٹنگ کی۔۔۔
مالم جبہ سے واپسی پر ہم ڈائیوو کی موبائل ایپ سے سوات سے لاہور کیلئے ٹکٹ
بک کرانے کی کوشش میں لگے رہے۔۔۔انتظامی معاملات چونکہ ہمارے ذمے تھے، لہذا
یہ ذمہ داری بھی ہمیں ہی سونپی گئی تھی۔۔کچھ پلاننگ کی تاخیر، کچھ ہماری سستی
کہ جب ٹکٹ خریدنے کیلئے کچھ دیر بعد دوبارہ موبائل ایپ پر گئے، تو سیٹیں
ندارد۔۔۔۔ ٹینشن کا ایک جھونکا آیا اور تیز ہوا کی طرح گزر گیا۔۔۔ہم، چونکہ
اس سے پہلے بیسیوں بار سفر کر چکے تھے، جانتے تھے، کہ ڈائیوو نا سہی، کوئی
لوکل بس مل جائے گی، وہ نا سہی، صبح پہلی بس مل جائے گی، الغرض کوئی نا کوئی
رستہ ضرور نکل آئے گا۔۔۔کیسے؟ یہ نہیں پتا، لیکن سفر نے ہمیں اتنا ضرور سکھا
دیا تھا کہ کچھ نا کچھ رستہ ہمیشہ نکل ہی آتا ہے۔۔۔ ہم نے یہ بریکنگ نیوز
باقیوں کو ابھی سنانا مناسب نہیں سمجھا، کہ ایک تو ہم رنگ میں بھنگ ڈالنے کے
بالکل قائل نہیں۔۔۔اور دوسرا ، جو چیز اختیار سے باہر ہو، اس پر کیا ٹینشن
لینا۔۔۔اب چڑیا جب سیٹ چگ ہی گئی، تو اب پچھتانا چہ معنی۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ
ہم یہ بری خبر سب سے چھپا کر ہی رکھتے۔۔بس خالی پیٹ، یہ بم پھوڑنا کچھ بھلا
معلوم نہیں ہوا۔۔
سوات پہنچے تو ڈنر کا وقت ہو چکا تھا۔۔ آج وقت کافی تھا، اس لئے مختلف
ریسٹورنٹ گھومتے رہے اور چرسی تکہ اور دنبہ کڑاھی ڈھونڈھتے رہے۔۔چرسی تکے اور
دنبہ کڑاھی والے کچھ ریسٹورنٹ بند ہو چکے تھے، اور جو کھلے تھے، ان کے پاس
مطلوبہ ڈش ختم ہو چکی تھی۔۔گویا چرسی تکہ اور دنبہ کڑاھی ہمارے نصیب میں نہیں
تھی۔۔۔آخر کار گھومتے گھماتے، حجرہ ریسٹورنٹ پسند آیا، اور دریا کے کنارے لگی
ٹیبل کرسیوں پر براجمان ہو گئے اور کھانے کا آرڈر دے دیا۔۔۔ وقت تقریباً نو
بجے کا ہوگا، اور رات بارہ بجے کی آخری بس سے ہمیں لاہور جانا تھا۔۔۔کچھ دیر
گپ شپ چلتی رہی، اور موسم کے مزے لوٹتے رہے۔۔۔ ہم سے چند قدم کے فاصلے پر
دریائے سوات بہہ رہا تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سردی میں اضافہ ہو رہا
تھا۔۔۔ویٹر کھانا لے آیا، اور سب نے کھانا شروع کیا۔۔۔ چند نوالے کھانے کے
بعد ہم نے موقع مناسب سمجھا، اور آخر کار یہ بم بھی پھوڑ ہی دیا۔۔۔ اور ساتھ
ہی تسلی بھی دے دی، کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کچھ نا کچھ رستہ نکل
ہی آئے گا۔۔۔چند لمحوں کیلئے خاموشی چھا گئی۔۔۔کھانا رک گیا۔۔۔تھوڑی پریشانی،
تھوڑی فکر، پھر کھانا شروع ہو گیا، اور پھر سب نارمل ہو گیا۔۔۔
کھا کرفارغ ہوئے تو دس بج چکے تھے۔۔۔ ڈائیوو کے اسٹاپ کا رخ کیا اور دعائیں
مانگتے رہے کہ سیٹ مل جائے۔۔پہنچ کر جب کاؤنٹر پر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ دو
سیٹیں تو ہیں۔۔تیسری اور چوتھی سیٹ کیلئے انتظار کرنا پڑے گا اگر کوئی مسافر
تاخیر سےآتا ہے، یا اپنی بکنگ کینسل کرواتا ہے، تو ہمارا چانس ہے۔۔۔ خیر،
ہماری دعائیں رنگ لائیں، اور کچھ دیر بعد کاؤنٹر سے آواز آئی کہ دو مسافر
اپنی بکنگ کینسل کروا چکے ہیں، اور یوں دو الگ، دو الگ سہی، پر ہمیں چار
سیٹیں مل گئیں۔۔اور جب سفر شروع ہوا تو ہم نے سیٹیں تبدیل کروا کر چاروں
سیٹیں ایک ساتھ کروا لیں۔۔۔
یہ چونکہ رات کی آخری بس تھی، لہذا خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا، اور
آدھے سے زیادہ مسافرین سو چکے تھے۔۔۔یہ ایک بوریت والا سفر ہونے والا تھا،
لیکن کچھ دیر بعد ہی دو فلمیں شروع ہو گئیں۔۔۔ایک تو ٹی وی پر، کوئی ہندی فلم
تھی، اور اس ہندی فلم کی وجہ سے ہم سے پچھلی سیٹ پر ایک اور فلم شروع ہونے کو
تھی۔۔۔در اصل ہم سے پچھلی سیٹ پر'نیسلے سے ہاتھ منہ دھونے والی'' ایک برگر
فیملی تھی، جن کے ساتھ دو منی برگر بھی تھے۔۔۔خاتون بچوں کے ساتھ اکیلے سفر
کر رہی تھیں، اور انھیں ڈائیوو میں موجود ہر سہولت میں خوب سے خوب تر کی تلاش
تھی۔۔۔ایکوافینا پیش کیا گیا، تو انھیں نیسلے چاہئے تھا۔۔پیپسی دی گئی، تو
انھیں شوگر فری چاہئے تھی۔۔۔لیز دیا گیا تو انھیں پرنگلز چاہئے تھا۔۔۔اسی طرح
جب ہندی فلم لگی، تو انھیں انگریزی فلم چاہئے تھی۔۔۔کیونکہ ہندی فلموں سے
بچوں کی زبان خراب ہو جاتی ہے۔۔۔ قسمت کچھ ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، کہ جب
انھیں ہیڈ فون ملا، تو وہ دائیں کان سے بہرا تھا۔۔۔ بس ہوسٹ کو طلب کیا گیا ،
اور ہیڈفون تبدیل کروایا گیا۔۔۔دوسرے والے کا بایاں کان خراب تھا۔۔۔تیسرا
چلتے چلتے بند ہوجاتا تو چوتھا ان کے سر پر فٹ نہیں آرہا تھا۔۔۔ہوسٹ بے چارہ
تھوڑی دیر میں تھک گیا، اور خاتون سے معذرت کر لی کہ ان سب کے علاوہ اور کوئی
ہیڈ فون نہیں ہے ہمارے پاس۔۔۔ہو سکتا ہے، وہ خاتون شاید سوات کو یورپ سمجھ
بیٹھی ہوں۔۔۔یہ سلسلہ کچھ دیر اور چلتا رہا، اور پھر ہم بھی سو گئے۔۔ آنکھ
کھلی تو ہم لاہور پہنچ چکے تھے۔۔
لاہور سے کراچی
لاہور پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد جہانزیب کی اگلی بس فیصل آباد کیلئے تیار
تھی، جبکہ ہم ٹیکسی میں سامان لے کر ہوٹل پہنچے۔۔ دو سال پہلے ہم جب لاہور
آئے تھے، تب بھی اسی ہوٹل میں رکے تھے، لہذا اس بار بھی ہوٹل ڈھونڈنے میں وقت
ضائع کرنے کے بجائے ہم سیدھا پارک ویو ہوٹل پہنچ گئے اور کمرے میں سامان رکھ
کر سو گئے۔۔
صبح کا آغاز دوپہر میں ہوا۔۔ وقت کی کمی کے باعث ہمارا پلان نہایت مختصر
تھا۔۔ سالٹ اینڈ پیپر پر اسٹیک کا لنچ کیا، اور پھر لبرٹی پہنچ کر کتابوں کی
شاپنگ کی۔۔۔ اچھی کتابیں ہماری کمزوری ہیں۔۔۔لبرٹی بکس پر کتابوں کا ذخیرہ، اور کارڈ میں پیسے کی زیادتی،
کافی خطرناک ثابت ہوئے اور بجٹ سے کچھ بڑھ کر شاپنگ ہو گئی۔۔ باہر نکلے تو
ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی، اور اس سہانے موسم کا تقاضا تھا کہ کچھ کھٹا
میٹھا ہو جائے۔۔کونے پر لگے ٹھیلے سے لیمن سوڈا پیا، اور اپنی اگلی منزل کی
جانب روانہ ہوگئے۔۔
ہماری اگلی منزل داتا دربار تھی۔۔ ہم جوں جوں لبرٹی سے داتا دربار کی طرف
بڑھے، بارش تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔۔ داتا دربار میں داخل ہوئے تو ہم مکمل
طور پر بھیگ چکے تھے، اور بارش طوفانی شکل اختیار کر چکی تھی۔۔ اس طوفانی
ماحول میں داتا صاحب کے مزار پر حاضری دی، اور مغرب پڑھ کر واپسی ہوٹل کی طرف
روانہ ہوئے۔۔ بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے کئی رستے بند ہو چکے تھے،
آخرکار بھٹکتے بھٹکتے ہوٹل پہنچ گئے اور سامان اٹھا کر ٹرین اسٹیشن روانہ ہو
گئے۔۔۔
جب ہم ٹرین میں بیٹھے، تو تین سیٹیں ہماری تھیں، اور تین سیٹیں ایک فیملی کی
تھیں۔۔۔ ایک خاتون، ان کے شوہر اور ساتھ ایک چھوٹی بیٹی۔۔۔ ان کے پاس سامان
کافی زیادہ تھا، اور شوہر بہت بے چارہ معلوم ہو رہا تھا۔۔۔ کمپارٹمنٹ کا
دروازہ کھولتے ہی جب ان خاتون کو پتہ چلا کہ ساتھ کوئی فیملی نہیں ، بلکہ
چھڑے چھانٹ ہیں، انھوں نے اندر داخل ہونے سے ہی منع کر دیا اور اپنے شوہر کو
سنانی شروع کر دی۔۔۔ وہ بے چارہ مظلوم، ہاتھوں میں سامان اٹھائے، کبھی آگے
دیکھے، کبھی پیچھے۔۔۔اور پھر ہماری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔گویا اس
کی شادی کے ذمہ دار ہم ہوں۔۔۔ شوہر بے چارہ معاملہ سمجھ رہا تھا، بیوی کو
سمجھانے لگا کہ ہماری تین سیٹیں ہیں، باقی تین ان کی ہیں، تو اس میں ان کا
کیا قصور۔۔۔بیوی کہنے لگی، تو آپ نے پوری چھ سیٹیں کیوں نہیں کروائیں۔۔۔شوہر
چپ۔۔۔۔ میں تو کہہ بھی رہی تھی کہ فلائٹ بک کرالیں۔۔۔شوہر چپ۔۔۔اب ریلوے
انتظامیہ کو بلائیں، اور ان تینوں کو کہیں اور بھیج دیں۔۔۔ شوہر چپ۔۔۔
ایک لمحے کو ہمیں، اپنا غیر شادہ شدہ ہونا، ایک نعمت لگنے لگا۔۔۔ہم سنتے
ہوئے بھی ان سنی کرتے رہے، اور برداشت کر گئے۔۔۔وہ بے چارہ پہلے سے اتنا
مظلوم تھا کہ اسے مزید کچھ کہنا ہمیں مناسب نہیں لگا۔۔۔عام حالات میں ایسی
صورت حال میں ہم اپنی سیٹ کسی اور فیملی سے تبدیل کر کے خود بھی، اور فیملی
کو بھی سکون سے سفر کرنے دینے کے حق میں ہوتے ہیں، لیکن اس خاتون کی زبان
درازی اور حقارت سے بات کرنے کے انداز کی وجہ سے ہم نے بھی ٹھان لی، کہ ہم تو
سیٹ نا چھوڑیں گے اور جسے مسئلہ ہو، وہ کہیں اور چلا چائے۔۔۔شوہر بے چارے نے
کافی سمجھانے کی کوشش کی، لیکن خاتون نا مانیں۔۔
آخر کار بیوی کے پر زور اصرار پر شوہر نے انتظامیہ کو بلایا، اور خاتون نے
شوہر سے کہلوایا کہ آپ لوگ ٹکٹ بک کرتے وقت فیملی اور سنگلز کو الگ الگ کیوں
نہیں کرے۔۔۔ انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ ٹرین میں فیملی اور سنگلز کیلئے
کوئی علیحدہ انتظام نہیں ہے۔۔۔ آپ صرف باہمی رضامندی سے آپس آپس میں کسی سے
کمپارٹمنٹ تبدیل کر سکتے ہیں۔۔۔اب ان خاتون نے بے چارے شوہر کو ٹرین کے پہلے
ڈبے سے آخری ڈبے تک دوڑایا۔۔۔شوہر ہانپتا کانپتا ہر ڈبے کے ہر کمپارٹمنٹ میں
تین سنگلز ڈھونڈھ رہا تھا۔ آخر کار، اسے تین مطلوبہ بندے مل گئے اور یوں یہ
درد سر خاتون یہاں سے تشریف لے گئیں۔۔سامان شفٹ کرنے میں بے چارے شوہر کے تین
چکر مزید لگے۔۔۔ہمیں اس کی حالت پر ترس آ رہا تھا ۔۔ان کے جانے کے بعد ہمارا
تو بقیہ سفر بہترین گزرا۔۔۔ اس بے چارے شوہر کے بارے میں ہم کچھ کہہ نہیں
سکتے۔۔۔
Nice
جواب دیںحذف کریں