پرنسز آئی لینڈز

 پرنسز آئی لینڈز

۱۷ اپریل ۲۰۱۸
استنبول آئے ہوئے ہمیں تقریباً بیس دن ہو چکے تھے اور آج ہمارا شہزادوں کے جزیرے یعنی پرنسز آئی لینڈز جانے کا ارادہ تھا، اور اسی کے پیش نظر ہم نے کافی معلومات جمع کر لیں تھی۔۔۔شہر کی فیری لائنز کی سرکاری ویب سائٹ سے جزیرے جانے ولی فیریز کا شیڈول اور کرایہ دیکھ لیا تھا، گوگل میپ سے تمام جزیروں کے قابل دیدمقامات کی تفصیلات کا جائزہ لے لیا تھا، گوگل میپ پر ان مقامات کے حوالے سے لوگوں کے دیے گئے تبصرے پڑھ لیے تھے، اور وِکی پیڈیا سے ان جزائر کی تاریخ کا بھی مطالعہ کر لیا تھا۔۔۔ اگر چہ ہم ان جزیروں کو فتح کرنے نہیں جا رہے تھے،بلکہ محض گھومنے جا رہے تھے، لیکن یہ ساری پلاننگ ضروری تھی۔۔۔سو سے ڈیڑھ سو لیرا میں کسی ٹور آپریٹر کے ذریعے بھی پرنسز آئی لینڈز جایا جا سکتا تھا لیکن ہمارا میمن دماغ اس پر راضی نہیں تھا۔۔۔
فیری کا یک طرفہ کرایہ پانچ لیرا اور بیس قروش تھا۔۔۔ امینونو پہنچ کر ہم نے ڈیپوزٹ مشین سے اپنے استنبول کارڈ میں ۱۵ لیرا ڈالے اور فیری ٹرمینل پر استنبول کارڈ اسکین کر کے کرایہ ادا کیا اور فیری کے انتظار میں بیٹھ گئے۔۔۔ یہ فیری امینونو سے کادیکوئی، اور پھر شہزادوں کے جزیروں میں سے پہلے جزیرے کینالی آدا، دوسرے جزیرے بورگاز آدا، اور تیسرے جزیرے ھے بیلی آدا سے ہوتی ہوئی آخری جزیرے بیوک آدا جاتی تھی۔۔۔ یہ پورا سفر ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔۔۔
فیری کی آمد و رفت میں وقت کی اس قدر پابندی تھی کہ آپ فیری کو آتا دیکھ کر اپنی گھڑی درست کر سکتے تھے۔۔ اگرچہ یہ کام آپ وطن عزیز پاکستان میں بھی ٹرین کے آنے سے کر سکتے ہیں، لیکن اس کیلئے پھر تاریخ بھی ایک دن آگے کرنی پڑتی ہے۔۔۔
فیری اپنے مقررہ وقت پر ٹرمینل پر آکر رک گئی۔یہ فیری تین منزلہ تھی اور اس کے نچلے درجے پر کیفیٹیریا بنا ہوا تھا جس میں کھانے پینے کی کئی اشیاء موجود تھیں۔۔۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ فیری کے کیفیٹیریا میں تمام اشیاء کی قیمت وہی تھی جو شہر میں ہوا کرتی تھی۔۔۔ نچلے اور درمیانی درجے ہیٹر کی وجہ سے گرم تھے اور اکثر سیاح سردی کی وجہ سے نیچے بیٹھ گئے تھے۔۔۔ہم کھلی فضا میں بیٹھ کر ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے آئے تھے، لہذا فیری کی سب سے اوپر والی منزل پر آگئے ۔۔۔
فیری کے سفر آغاز ہوا، اور ہم نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لینا شروع کیا۔۔۔بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی کہ دو چیزیں دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔۔ آلو، اور پاکستانی۔۔۔آلو تو البتہ ہمیں نظر نہیں آئے لیکن سیاحوں میں چند پاکستانی ضرور نظر آئے۔۔۔ ہمارے ساتھ والے بینچ پر چار لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو عربی میں گفتگو کر رہا تھا۔۔۔ان سے تعارف ہوا تو پتا چلا وہ بھی ہماری طرح سعودی عرب میں مقیم ہیں اور چھٹیاں منانے ترکی آئے ہوئے ہیں۔۔۔ان میں سے دو فلسطینی بھائی تھے، ایک اردنی تھا، اور ایک شامی تھا۔۔۔ فیری پر کئی ہم وطنوں کی موجودگی کے باوجود ہماری ان عربوں سے زیادہ اچھی بن گئی اور پھر فیری کا یہ سفر، بیوک آدا، اور واپسی شہر جانے تک ہم تقریباً ساتھ ساتھ ہی رہے۔۔۔
فیری جب سمندر کے بیچ میں پہنچ گئی تو سمندری بگلے فیری کے چاروں جانب اڑنے لگے۔۔۔ انھوں نے اپنی رفتار فیری کی رفتار کے عین برابر کر دی تھی، اور اب ایسا معلوم ہوتا تھا گویا سارے بگلے ہوا کے بیچوں بیچ رکے ہوئے ہوں ، اور وہ کئی کئی منٹوں تک ہوا میں ایسے ہی معلق رہتے ۔۔۔ سیاح روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سمندر کی جانب پھینکتےجاتے، اوربگلے نہایت پھرتی سے لپک کر اسے اپنے منہ میں لینے کی کوشش کرتے اور اکثر کامیاب ہو جاتے۔۔۔ بگلوں کی تعداد بڑھتی گئی اور اب نیچے چار دیواری میں بند سیاح بھی اوپر آنا شروع ہو گئے۔۔۔ اس فیری پر مختلف ممالک کے سیاحوں کے علاوہ ترکی سیاح بھی کافی تعداد میں موجود تھے ۔۔۔
ہمیں بچپن سے یہ نصیحت کی گئی تھی کہ ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں اور اپنی خامیوں پر نظر رکھنی چاہئے، لہذا اپنے اس سفر ِ ترکی میں بھی ہم نے ترکی کی خوبیوں پر نظر رکھی۔۔۔اگرچہ کچھ مواقع پرہماری شرم وحیا آڑے آگئی اور ہمیں کچھ "خوبیوں"پر سے نظر ہٹانا پڑ ی ۔۔۔ایک جاننے والے نے ہمیں بتایا تھا کہ ترکی میں جوں جوں گرمی قریب آتی ہے، نظر کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔۔۔ انھوں نے یہ بات ہمیں ترکی آنے کے بعد بتائی ورنہ شاید ہم اپریل کے بجائے جون میں آتے۔۔۔
اگرچہ ہم بیوک آدا پہلی بار جارہے تھے، لیکن ہماری ریسرچ نے ہمیں اس قابل کر دیا تھا کہ ہم پرنسز آئی لینڈز پر ایک اچھی خاصی تقریر کر سکتے تھے۔۔۔عرب دوستوں میں جب اس بات پر اختلاف ہوا کہ کس جزیرے پر اترا جائے، تو ہم نے اپنی رائے دیتے ہوئے انھیں چاروں جزائر کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ بیوک آدا دیکھا جائے۔۔انھیں ہمارا مشورہ پسند آیا اور انھوں نے بھی بیوک آدا جانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی قریب بیٹھےکچھ اور لوگوں نے ہم سے واپسی کیلئے چلنے والی آخری فیری کا وقت پوچھا ۔۔۔ہم نےسٹی لائنز کی سرکاری ویب سائٹ کھول کر شیڈول ا ن کے سامنے رکھ دیااور گوگل میپ پر انھیں فیری کے اسٹاپ بتائے۔۔۔ایک لبنانی جوڑے کو یہ فکر لاحق تھی کہ جزیرے پر کھانے کو کیا ملے گا۔۔۔ ہم نے انھیں وہاں کی مشہور مچھلی کے بارے میں بتایا ۔۔۔
اب ارد گرد بیٹھے کافی لوگوں نے ہمیں اس سفر کا گائیڈ مان لیا تھا اور اب ہم اندھوں میں کانے راجہ تھے۔۔۔کسی کو ان جزیروں کی تاریخ میں دلچسپی تھی، تو کسی کو ان پر بنے عالیشان گھروں کی قیمت کا اندازہ لگانا تھا۔۔۔اس ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں ہم نے اردو، انگریزی، عربی ،گوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعے ترکی، اور اشاروں کی زبان کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ سے حاصل کی گئی معلومات آگے پھیلائیں۔۔۔
دراصل ماضی میں جب کسی شہزادے کو جلا وطن کرنا مقصود ہوتا، تو انھیں ان جزیروں پر بھیج دیا جاتا جس کی وجہ سے ان کا نام پرنسز آئی لینڈز پڑ گیا۔۔۔یہ کل نو چھوٹے چھوٹے جزیرے تھے جن میں سے چار پبلک اور پانچ پرائیوٹ تھے۔ بیوک ترکی میں بڑے کو کہتے ہیں، اور آدا جزیرے کو کہتے ہیں۔۔۔ بیوک آدا، ان نو جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ہونے کی وجہ سے اس نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔ پرائیویٹ جزیروں پر دنیا کے امیر ترین لوگوں کے محل نما خوبصورت گھر ہیں۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس جزیرے پر ایک محل سابق صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کا بھی ہے۔۔۔
فیری اپنے مقررہ وقت پر بیوک آدا پہنچی اور سیاحوں کا ٹولا بگھی اور سائیکل کی تلاش میں نکل پڑا۔۔۔پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی عدم موجودگی سے جزیرے کی آب و ہوا انتہائی بھلی محسوس ہورہی تھی۔ وہاں سیاحوں کے علاوہ مقامی رہائشی بھی تھے ، اور مرد، خواتین، بچے ، بوڑھے سب سائیکل پر سوار تھے، یا گھوڑا گاڑی میں بیٹھے تھے، یا پیدل چل رہے تھے۔۔یہ منظر انتہائی حسین لگ رہا تھا ۔۔۔
قدم قدم پرکھانے کے ہوٹل، آئسکریم پارلر، اور رینٹ اے سائیکل کی دکانیں تھیں ۔۔۔ہم نے بھی ایک سائیکل ایک گھنٹے کیلئے کرایے پر لے لی اور جزیرے کے دورے پر نکل پڑے۔۔۔عرب دوستوں کا گروپ بھی ہمارے ساتھ ہی تھا اور ہم ساتھ ہی گھومتے رہے اور فوٹو سیشن کرتے رہے۔۔۔ ہماری اس دن کی سب سے بہترین تصویر کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔۔۔
جزیرے کے اطراف میں سمندر کے ساتھ ساتھ ایک ٹریک بنایا گیا تھا جو سائیکل اور پیدل چلنے والوں کیلئے تھا۔۔۔شام ڈھل چکی تھی اور سورج بالکل سامنے آچکا تھااوراب ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔۔۔ یہ منظر کسی رومانوی فلم کا سین لگ رہا تھا۔۔۔ سیاحوں کے جوڑے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، آئسکریم کھاتے، بارش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سمندر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور وقفے وقفے سے سیلفیز لے رہے تھے۔۔۔
گھنٹہ پورا ہونے پر ہم سائیکل واپس کر کے پیدل ٹہلنے لگے۔۔۔ کچھ دور جا کر ایک دکان سے آئسکریم لی، اور ایک خالی کرسی پر سمندر کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے۔۔۔ بارش میں بھیگتے ہوئے آئسکریم کھانے کا لطف کچھ ایسا آیا کہ ہم نے پہلی آئسکریم ختم ہونے سے پہلے ہی دوسر ی کا آرڈر کر دے دیا۔۔۔
ہم نے اس پورے جزیرے پر کسی سیاح کو اکیلا نہیں دیکھا۔۔۔ کچھ دوستوں کے گروپ کی شکل میں تھے، اور زیادہ تر جوڑے تھے۔۔۔ترکی زبان میں غیر شادی شدہ افراد کو 'بے کار ' کہا جاتا ہے، اور شاید اس وقت اس پورے جزیرے پر ہم اکیلے 'بےکار' تھے۔۔۔ اس جزیرے کی رومان بھری فضا میں ہماری میز پردوسری کرسی خالی دیکھ کر ہمیں شدت سے اپنی تنہائی کا احساس ہوا اور ہم نے اسی لمحے یہ فیصلہ کر لیا کہ جلد ہی ہم دوبارہ یہاں آئیں گے اور تب یہ دوسری کرسی خالی نہیں ہوگی۔۔۔
دور سمندر میں بادلوں کی اوٹ میں سورج غروب ہو رہا تھااور بارش بدستور جاری تھی ۔۔۔ 

تبصرے