پھر سفر زیست کا کتنا مجھے آساں ہوتا
یاسر یونس
تجھ سے نفرت کا
اگر تھوڑا سا امکاں ہوتا
پھر سفر زیست کا کتنا مجھے آساں ہوتا
تیرے جانے کا کوئی رنج نہ آنے کی خوشی
تیرا ہونا، نہیں ہونا، مجھے یکساں ہوتا
آس ہوتی نہ کبھی تیرے پلٹنے کی مجھے
اور اگر لوٹ بھی آتا تو میں حیراں ہوتا
جو دِیا بجھ گیا، جلتا وہ اگر تا بہ سحر
شبِ تاریک میں جینا مجھے آساں ہوتا
پھر تیری آخری خواہش کا بھرم بھی رہتا
بھول جاتا میں، اگر بھولنا آساں ہوتا
یو ں تو ارماں ہی نہیں اس دلِ ویراں میں مگر
پھر سے ہوتا بھی اگر، تیرا ہی ارماں ہوتا
تیری آنکھوں سے ٹپکتا جو کبھی اِک آنسو
وہ صدف کیلئے اِک قطرہ نیساں ہوتا
پھول کھلتے دلِ ویراں میں تیری یادوں کے
پھر خزاں میں بھی
یہاں جشن ِبہاراں ہوتا
تیرے آنے سے بیابان بھی گلشن لگتے
تیرے جانے سے گلستان بھی ویراں ہوتا
کتنا آساں تھا محبت کا کسی سے ہونا
کاش نفرت کا بھی ہونا ، یونہی آساں ہوتا
میری خوشیوں میں چھپے درد سمجھتا کوئی
میرے جیساکوئی میرا بھی نگہباں ہوتا
باعثِ رشک ِجہاں میری محبت ہوتی
مجھ پہ تھوڑا سا اگر وقت مہرباں ہوتا
گر لکھا ہوتا میرا نام تیرے نام کے ساتھ
پھر مکمل میری اس غزل کا عنواں ہوتا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ ضرور دیں، ایسے نہیں جانے دیں گےہم