فرم میں پہلا دن
یاسر یونس
۲۶ مئی
۲۰۱۴
میں نے بچپن میں کسی کتاب میں ایک جملہ پڑھا تھا جو میرے ذہن
میں بیٹھ گیا تھا۔ 'فارغ بیٹھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے'۔ اس وقت تو اس کی صداقت
پر کوئی خاص اعتبار نہ ہوا تھا۔ کئی برس گزرنے کے بعدآج اس مقولے پر دل و جان سے
ایمان لے آیا۔ آج میرا آفس میں پہلا دن تھا اور ایک کرسی پر آٹھ گھنٹے بِنا کچھ
کیے بیٹھنے کا پہلا اتفاق ہوا تھا۔ دبے لفظوں یہ شکوہ کر بیٹھے اور اس کی بھنک
خداوندانِ آفس کو پڑ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پہلا اتفاق آخری ثابت ہوا اور اگلے
دن ہماری پوسٹنگ ایک کلائنٹ پر ہو گئی۔
کلائنٹ پر جا کر احساس ہوا کہ فارغ بیٹھنے سے زیادہ مشکل
کام بھی ہیں اور اب ہماری قسمت میں وہ ہی لکھے ہیں۔ باغبان صاحب سے گلہ کرنے کی
گنجائش نہ تھی کہ ہم اپنی مرضی سے اس کورپوریٹ کنویں میں کودے تھے۔ صیاد سے حسبِ
عادت گلہ کر چکے تھے مگر اب زبان نہ کھلتی تھی ۔ ہم مروت کے مارے بے چارے شریف
النفس انسان ٹھہرے۔ بہادر شاہ ظفر کی طرح ہم نے بھی اس بے رنگ سے رنگون میں قید کا
ذمہ دار اپنی قسمت کو ٹھہرایا۔ بے رنگ اس لیے کہ ہمارا آفس وجودِ زن سے پاک تھا۔
کچھ غلطی بہادر شاہ صاحب کی بھی تھی کہ
اگر انھوں نے اس وقت ' ہنوز دلی دور است' کی جگہ 'اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے' کہا ہوتا تو شاید آج ہمارے آگے فائلوں کے انبار
کی جگہ شاہی دربار لگا ہوتا۔
ذکر چل رہا تھا کلائنٹ پر پوسٹنگ کا۔ خیر سے اگلے دن ہم صبح وقت پر اپنی ٹائی درست کرنے کا ناٹک کرتے ہوئے
کلائنٹ کی فیکٹری میں داخل ہوئےاور ہمارے لیے مختص ہال میں کمپیوٹر کے سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوگئے۔
سینئر صاحب ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے اور کی بورڈ اپنے ہاتھ میں لیے ایکسل کی فائل پر کام کرنے
لگ گئے۔
ہال کافی بڑا تھا اور
اس میں مٹی کی تہہ اس حد تک جمی ہوئی تھی کہ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہم
جسے خاکی رنگ کا قالین سمجھ رہے تھے، اس پر اپنے نقشِ قدم نہ دیکھتے تو اسے واقعی خاکی قالین ہی سمجھتے۔ اب ہم اس ہال کے عین وسط میں بیٹھےاپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگے۔ ہال کی دوسری
جانب بند کھڑکی کھولنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ شاید کسی
پرندے کے گھونسلے میں گھس رہے ہیں۔ کھڑکی بند کر کے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ
گئے ۔
ہال کی بائیں جانب ایک عدد گھومنے والا پنکھا لگا ہوا تھا ۔
جب اس کا رخ سینئر صاحب کی طرف ہوتا تو ہم ان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور
جب اس کا رخ ہماری طرف ہوتا ، تو سینئر
صاحب پسینہ پونچھنے لگ جاتے۔ خدا گواہ ہے، اس وقت ہمیں اپنی فرم کا اے سی بہت یاد آیا۔ اگر چہ لنچ ٹائم پر
وہ ایک گھنٹے کیلئے بند کر دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی باقی سات گھنٹے کی 'ٹھنڈ'
بہت یاد آئی۔
ہم پورا دن اس ہال
میں گھومتے رہے۔ ہمارے جوتوں کے نشان پورے ہال میں موجود تھے اور کلائنٹ ہم
سے شاید اس وجہ سے بھی خوش تھا کہ ہم نے
اس کے ہال کی کافی حد تک صفائی کردی تھی۔ اب مٹی کی تہہ کے نیچے کچھ کچھ سفید زمین
نظر آرہی تھی۔
خدا خدا کر کے وقتِ
لنچ آیا اور یہ وہ لمحہ تھا جب ہمیں احساس
ہوا کہ اگر قسمت نے ہمارا ساتھ دیا تو اگلے ساڑھے تین سال کا لنچ ہمیں مفتے میں
ملا کرے گا۔ کھانا اتنا مزیدار تھا کہ ہم اپنے سارے غم بھول گئے ۔کیا مٹی ، کیا گرمی، ہمارا تو دل چاہا کہ کچن
میں جا کر باورچی کے ہاتھ چوم لیں۔ لنچ
کرنے کے بعد ہم ٹہلنے کی غرض سے آفس کے
دیگر ہالز کا معائنہ کرنے نکل پڑے۔ ہمیں شدید افسوس ہے کہ ہمارے اس معائنے کی وجہ سے اسٹاف کے چند ممبران کے قیلولے متاثر ہوئے۔ ہم نے ان سے
معذرت کی اور ہمیں قوی امکان ہے کہ انھوں نے ہماری معذرت قبول کر لی ہوگی کیونکہ
ہمارے پلٹنے سے پہلے ہی وہ کروٹ بدل کر پھر سو گئے تھے۔
شام کے وقت سینئر صاحب سے پتا چلا کہ ہمیں روزانہ الاؤنس
بھی ملا کرے گا۔ اب ہمیں یہ کلائنٹ اچھا
لگنے لگا۔ ہم چونکہ 'ٹچے جونئیر 'تھے، اور بالکل ہی نئے تھے، لہذا ہمیں پہلے دن
کچھ خاص کام نہیں ملا تھا۔ ہم نے مناسب موقع پا کر کچن کا رخ کیا اور لنچ کا
روزانہ کا مینیو پوچھ لیا۔ اب ہم نے اپنا شیڈول کچھ ایسے بنایا کہ گھر کے
ضروری کام سبزی والے دن رکھ
لیے جبکہ قورمہ اور بریانی والے دن اگرکسی
وجہ سے تاخیر بھی ہو جاتی تو ہر صورت
میں لنچ سے پہلے پہنچ جایا کرتے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ ضرور دیں، ایسے نہیں جانے دیں گےہم