اہلِ ووہان نے یہ کیسی حماقت کی ہے
ساری دنیا میں بپا ایک قیامت کی ہے
ہم نے دنیا سے کچھ اس طور بغاوت کی ہے
دورِ فرقت میں یہاں وصل کی چاہت کی ہے
پوچھیے ہم سے ذرا طولِ شبِ ہجر و فراق
ہم نے کووِڈ کے زمانے میں محبت کی ہے
جتنے آزاد تھے، سب اپنے ہی گھر قید ہوئے
اہلِ کشمیر نے لگتا ہے شکایت کی ہے
آہ یہ سال کہ تعزیتیں کرتے گزرا
اور ہر ایک نے ہر اِک سے عیادت کی ہے
وہ زمانے گئے، منفی سے پریشان تھے لوگ
یہ نیا دور ہے یاں فکر ہی مثبت کی ہے
دست بوسی کیلئے ہاتھ بڑھاتے تھے کبھی
فاصلہ رکھ کے وہ ملتے ہیں، یہ حالت کی ہے
جن کا پیشہ تھا مسیحائی، وہ تاجر نکلے
اور مریضوں سے ہی سانسوں کی تجارت کی ہے
بدلہ لینا تھا، سو دشمن سےگلے مل آیا
ہائے یہ کیسی جداگانہ عداوت کی ہے
ہاتھ سے ہاتھ کا چھونا بھی ہلاکت ٹھہرا
اور پھر ہم ہیں کہ ہونٹوں سے شرارت کی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ ضرور دیں، ایسے نہیں جانے دیں گےہم