اشاعتیں

آغوشِ سمندر میں گزارے ہوئے ایام (مالدیپ کا سفر)

مالدیپ کا سفر

یاسر یونس

 

پیشگی معذرت

اس سفر نامچے میں ہم سے کئی باریہ غلطی سرزد ہوئی ہے کہ اردو میں انگریزی اصطلاحات کی ملاوٹ کر بیٹھے ہیں۔ اردو ادب کے کچھ مشکل سے مرنے والے پرستار ، جنھیں اردو میں انگریزی کی مداخلت بے جا معلوم ہوتی ہے ، ان قارئین سے پیشگی معذرت کرنا چاہیں گے۔ سفرنامچے کی ابتدا سے پہلے کچھ ایسی انگریزی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کیے دیتے ہیں۔

·  پیراسیلنگ بمعنی ایک تفریحی کھیل جِس میں چھتری بردار کھلاڑی موٹرکشتی کی پُشت سے بندھے ہوئےہوا میں تیرتے ہیں

·  اسنارکلنگ بمعنی ایک تفریحی کھیل جس میں تیراک کے منہ میں ایک نلکی نما سانس لینے والا آلہ ہوتا ہے ، جو پانی کی سطح کے اوپر ہوتا ہے، جس کے ذریعے تیراک پانی کے اندر سانس لیتا ہے

·  جھولن کھٹولا، جالی دار جھولا، انگریزی میں ہیمک 

·  جیٹ اِسکی بمعنی ایک چھوٹی تیز رفتار موٹر کشتی

·  ہوٹ بائٹ ، بمعنی گرم نوالہ،ایک ریسٹورنٹ کا نام

·  ریسٹورنٹ بمعنی ریستوران ،کھانے کا ہوٹل

آغاز

کہا جاتا ہے کہ سفر نامہ لکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتا ہے۔ پہلا سفر کرتے وقت، اور دوبارہ سفر نامہ لکھتے وقت۔ سو، ہم اس سفر کے تقریبا ً ایک سال بعد اب دوبارہ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

ستمبر ۲۰۲۱ کی بات ہے، ہمارے نکاح کو قریب دو سال ہونے والے تھے اورکرونا کی وجہ سے شادی تاخیر کا شکارتھی۔ترکی زبان میں غیر شادی شدہ افراد کو 'بے کار ' کہا جاتا ہے، تو اس حساب سے ہم دو سال سے بے کار تھے، اور اب مزید بے کار نہیں رہنا چاہتے تھے۔ کرونا کے باعث سعودیہ نے پاکستان سمیت کئی ممالک کیلئے راستے بند کیے ہوئے تھے۔ اس صورت میں اگر پاکستان سے سعودیہ آنا ہے تو کسی تیسرے ملک میں دو ہفتے گزارنا ضروری تھا۔ اب ہم کسی ایسے تیسرے ملک کی تلاش میں تھے، جو سعودیہ کے نزدیک کرونا سے پاک ہو، جہاں کا ویزا آسانی سے مل جاتا ہو، جہاں کورونا کے باعث ایسی پابندیاں نہ ہوں کہ دو ہفتے ہوٹل میں قید کاٹنا پڑےاور جو ہماری جیبِ نازک پر گراں نہ گزرے۔ کافی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہمیں چار ممالک میں سے کسی ایک کو چننا تھا۔

مالدیپ ہماری آخری امید تھا کہ اس کا ویزا مفت اور با آسانی مل جایا کرتا ہے۔ سو، ہم نےمالدیپ کیلئے رخت سفر باندھا۔ہم نے اپنے لیے ریاض سے مالے، اور بیگم کیلئے کراچی سے مالے کا ٹکٹ اس طرح خریدا کہ دونوں پروازوں کو بیس منٹ کے وقفے سے مالے پہنچنا تھا۔ ہماری انوکھی رخصتی کچھ ایسے واقع ہوئی کہ اُدھر سسرال والوں نے بیگم کو کراچی ائیر پورٹ پر رخصت کیا اور اِدھر ہمیں، ہمارے گھر والوں کی طرف سے ریاض ائیر پورٹ پر رخصت کیا گیا۔۔۔

ہمارے ایک دوست ہیں جو فیس بک پر ڈیکسٹر کے نام سے پائے جاتے ہیں ۔ سمندر اور پانی ان کی کمزوری ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پانی دیکھ کر میں مچھلی بن جاتا ہوں۔ ہمارے مالدیپ روانہ ہونے پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور خصوصی فرمائش کی کہ واپسی پر کچھ اور نہ سہی، ایک ڈیڑھ لیٹر بوتل میں مالدیپ کے سمندر کا پانی بطور تبرک ان کیلئے لے آوں کہ صحرائے ریاض میں اس سے نہا کر ان کی تڑپتی آتما کو کچھ شانتی ملے۔۔۔

مالدیپ ایک مسلم ملک ہے، جو آبادی کے لحاظ سے ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یہ ۱۱۹۲ جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے صرف ۲۰۰ جزائر پر رہائش ہے۔ہم نے ان ۱۱۹۲ جزائر میں سے چار جزیرے دیکھے۔مالے، ہولو مالے، مافوشی اور گُلھی۔ مالے مالدیپ کا دارالحکومت ہے، جہاں تقریباً مالدیپ کی اسّی فیصد آبادی مقیم ہے۔ہم نے اپنے دو ہفتوں کے قیام کیلئے مافوشی نامی جزیرے کا انتخاب کیا تھا۔ تیرہ سو میٹر لمبا اور ڈھا ئی سو میٹر چوڑا یہ جزیرہ مالے سے چھبیس کیلومیٹر دور واقع ہے۔۔۔

مالے میں جہاز اترا اور بس میں سوار ہو کر ائیر پورٹ کے دروازے پر پہنچے۔ائیر پورٹ کافی چھوٹا لیکن منظم تھا۔داخل ہوئے تو دو قدم سامنے امیگریشن کاؤنٹر تھے جن پر برقعے اور اسکارف میں ملبوس خواتین کھڑی تھیں۔ انگریزی میں خوش آمدید کہا، چند کاغذات دیکھے اور دو منٹ میں ویزہ اور داخلے کی مہر لگا کر اندر بھیج دیا۔ دس قدم آگے سے سامان اٹھایا اور ٹرالی پر لاد کر ائیر پورٹ سے باہر آگئے۔ ایک چھوٹی سی سڑک، جس کے دوسری جانب سمندر۔۔۔گویا جہاز سے اتر کر امیگریشن اور سامان سے گزر کر سمندر تک پہنچنے میں بمشکل دس منٹ کا وقفہ ہوگا لیکن حبس اور ہوا میں نمی کی وجہ سے عینک مکمل طور پر دھندھلی ہو گئی تھی اور ہم کسی غصیلے استاد کی طرح منہ نیچے اور آنکھیں اوپر کر کے عینک کے اوپر سے دیکھ رہے تھے۔ پسینے کے قطرے بالوں سے سفر کرتے ہوئے قطار در قطار پیشانی پر گرتے اور پھر بھنووں سے ہوتے ہوئے عینک کے شیشے پر ٹپکتے۔۔ اسی طرح چہرے کا پسینہ داڑھی کو تر کرتا ہوا قمیض پر گرتا اور چند منٹوں میں ٹی شرٹ کا یہ حال ہو گیا تھا کہ نچوڑ دیتے تو جانے کون کون وضو کر لیتے۔۔۔

لوگوں کے ہجوم اور اجنبیوں کی بھیڑ میں ہماری نگاہیں اپنی نئی نویلی دلہن کو تلاش کر رہی تھیں۔ ادھر ہمارا گرمی سے برا حال تھا تو دوسری طرف بھی برابر آگ لگی ہوئی تھی اور پسینے سے برا حال تھا۔۔۔ایک دوسرے کو دیکھ کر ہم یہ سوچنے لگے کہ کیوں اس جگہ کا انتخاب کیا تھا۔۔۔ہم نے ہوٹل کی بکنگ کے ساتھ ائیر پورٹ سے ہوٹل جانے والی فیری بھی بک کروا لی تھی، سو، کاونٹر پر پہنچے تو فیری کے مسافروں کی لسٹ میں ہمارا نام بھی موجود تھا۔ خدا خدا کر کے فیری چلی، اور جب ہوا کے جھونکے آئے، تو ہماری حالت بحال ہوئی۔۔ فیری تقریبا ًپونے گھنٹے میں مافوشی پہنچی۔۔۔

کانی پام بیچ ہوٹل

مافوشی پہنچ کر کشتی سے اترے تو ہوٹل کے عملے کے چند افراد ہمارا استقبال کرنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔ ایک نے ہمارا سامان ایک چھوٹی سی رکشہ نما گاڑی پر لادا ، اور دوسرا ہمیں پیدل ہوٹل کی جانب لے گیا۔ یہ ہماری مائیکل سے پہلے ملاقات تھی۔۔۔ مائیکل کا تعلق انڈیا سے تھا اور یہ کانی پام بیچ ہوٹل کا کافی پرانا ملازم تھا۔۔۔ مائیکل ایک گائیڈ کے طور پر ہر سیاح کا چہیتا تھا۔۔۔ اس کے دوستانہ رویے کی وجہ سے ہم بھی اس سے بہت متاثر ہوئے اور پندرہ دن کے قیام میں تقریباً روزانہ تین چار بار اس سے کسی نا کسی سلسلے میں ملاقات ہوجاتی تھی۔۔۔

ہم نے پندرہ دن کے قیام کیلئے تین مختلف ہوٹل لیے تھے۔ مقصد الگ الگ ہوٹلوں کی سروسز سے لطف اندوز ہونا تھا۔۔۔ کسی کا ناشتہ بہت اچھا تھا، تو کسی کی چھت پر انفینیٹی پول بہت اچھا تھا۔۔بمشکل پانچ منٹ کی مسافت طے کر کے جب ہم کانی پام بیچ ہوٹل پہنچے، تو استقبالیہ پر ایک فارم دے کر بٹھا دیا گیا۔۔۔کمرہ خالی ہونے میں تقریبا ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید باقی تھا۔ سو، ہم نے سامان رکھا اور کچھ کھانے پینے کی غرض سے گلیوں میں بھٹکنے لگے۔۔۔اس بھٹکنے کا بھی کیا مزہ تھا۔۔۔ یہ ہوٹل عین ساحل پر واقع تھا۔ قریب ہی ایک کیفے تھا، جہاں فرنچ فرائز اور ناریل پانی کا آرڈر دے کر ہم بیٹھ گئے۔۔ اب موسم تھوڑا بہتر محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی، اور پسینہ خشک ہو چکا تھا۔۔۔ 

تین بجے کے قریب ہوٹل میں چیک اِن ہوا، اور جب دوسری منزل پر واقع اپنے روم میں داخل ہوئے تو کمرے اور بالکونی کا منظردیکھ کر ساری تھکن ہوا ہو گئی۔۔۔بالکونی کی شیشے کی دیوار ، اور اس میں سلیقے سے رکھی دو آرام کرسیاں۔۔۔سامنے تا حدِ نظر سمندرکاخوبصورت نظارہ۔۔۔ناریل کے لمبے اور ٹیڑھے درخت، جن کی شاخیں ہوا کی وجہ سے ہر وقت ہلتی رہتیں۔۔۔ نیچے نیم دراز ساحلی کرسیاں اور ان کے ساتھ لگی رنگ برنگی ساحلی چھتریاں۔۔۔ دور تک پھیلا ہوا سمندر، اور اس میں ابھرتی لہریں۔۔۔ہماری بالکونی سے جو ساحل سمندر کا نظارہ تھا، وہ الفاظ میں بیان کرنا تو درکنار، تصویر میں بھی کما حقہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کیمرے کی آنکھ اس خوبصورتی کو نہیں سمیٹ سکتی جیسے انسانی آنکھ دیکھتی ہے اور محسوس کرتی ہے۔۔۔ 

صبح کا ناشتہ ہوٹل بکنگ میں شامل تھا۔ لہٰذا پوری کوشش رہی کہ وہ ضائع نہ ہو کہ ہم کفرانِ نعمت کے ہرگز قائل نہیں۔ پندرہ دن میں سے شاید دو یا تین دن ناشتہ نا کر پائے۔ ناشتے میں ہر وہ چیز ہوتی تھی، جو ناشتے میں کھائی جا سکتی ہے۔ ہمارا پسندیدہ چیز والا آملیٹ ہوتا تھا، جس کیلئے ایک علیحدہ قطار لگی ہوتی۔۔۔ ناشتے کا وقت صبح سات بجےسے دس بجے تک کا تھا۔ ہمیں یہ لکھتے ہوئے تھوڑی سی عار محسو س ہو رہی ہے کہ ہم، جو عام حالات میں سحر خیزی کے کچھ خاص قائل نہیں ہیں، یہاں ناشتے کی غرض سے ضرور اٹھ جایا کرتے، اور ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ نیند سے بیدار ہوئے، ناشتہ تناول فرمایا، گدھے، گھوڑوں کی خریدو فروخت کر کےپھر سو گئے۔

 دوپہر کو دو بجے اٹھ کر جب مارننگ کافی پی، تو زندگی کا حقیقی مقصد سمجھ آگیا۔ سال بھر صبح وقت پر اٹھ کر آفس جانے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ پچاس ہفتے زندگی گزارنے کے بعد دو ہفتے زندگی جی جائے۔ اور ہم صحیح معنوں میں زندگی جی رہے تھے۔۔۔

بچپن میں ریاضی میں پڑھا تھا کہ زیرو، یعنی صفر ایک انتہائی اہم ہندسہ بلکہ تمام ہندسوں کی جان ہے ۔ ہمیں اس کا صحیح معنوں میں ادراک اس سفر کے دوران ہوا۔ ہم نے مافوشی پر ایک نہایت کارآمد اور زندگی آسان کردینے والی جادوئی مشین دیکھی جو زیرو مشین تھی۔۔۔بظاہر تو یہ ایک عام سے ٹیلیفون جیسی تھی، لیکن اس کی سپر پاور الہ دین کے چراغ جیسی تھی۔۔۔باتھ روم میں شیمپو ختم ہو یا صابن کی نئی ٹکی چاہئے ہو، نیا تولیہ چاہئے ہو یا اضافی کمبل، کمرے کی صفائی ہویا ٹی وی کا کچھ کام، اس زیرو کی بدولت ہرخواہش منٹوں میں پوری ہوجاتی۔۔۔ہم اس سہولت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اب سوچا ہے، اسے اپنے گھر میں ضرور لگائیں گے۔۔۔

مافوشی میں جب موسم صاف ہوتا تو ہوا میں پرندوں سے زیادہ پیرا سیلنگ کے ائیربلون نظر آتے۔شام کے وقت بارش ہونے لگتی تو یہ حسین منظر اور بھی حسین ہوجاتا۔۔۔بارش ہوتے ہی پانی کی سرگرمیاں فوری طور پر رک جایا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم کم ہوجاتا تھا۔۔ ناجانے کیوں لوگ اتنے پیارے موسم میں ساحل چھوڑ کر اپنی اپنی ہوٹلوں کا رخ کرلیتے تھے۔۔ ہم تو اسے کفرانِ نعمت اور محرومی سمجھتے تھے، لہذا یہاں بارش کا پہلا قطرہ گرا نہیں، اور ہم نیچے اتر جاتے۔۔۔

اس سفر کے دوران چند ایک بار خداوندانِ آفس کو ہماری یاد ستانے لگی اور ہمیں آنلائن میٹنگ کیلئے طلب کیا گیا۔ ہم نے بھی کچھ سوچ کرہامی بھرلی۔ اگرچہ آفس پالیسی کے تحت میٹنگ میں کیمرہ آن کرنا اسی صورت ضروری ہے، جب آفس میں بیٹھے ہوں، مگر ہم نے کمپنی پالیسی سے ایک قدم آگے جا کر تابعداری کا ثبوت دیا اور بالکونی میں بیٹھ کر کیمرہ آن کر لیا۔ اب ہمارے بیک گراونڈ میں ناریل کے درخت، ساحل کی ریت، اور سمندر کی لہریں کچھ ایسا منظر پیش کر رہی تھیں کہ میٹنگ میں کام کی باتیں چھوڑ کر مالدیپ کی باتیں ہونے لگیں اور کمپنی کے بجٹ کی بحث کی جگہ مالدیپ کے ٹرپ کے بجٹ پر گفتگو شروع ہو گئی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس میٹنگ کے بعد کچھ دنوں تک آفس میں سوگ کا سماں رہا ہوگا۔۔۔ 

مافوشی جزیرہ طرح طرح کے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو مختلف ممالک سے سعودی عرب آنا چاہتے تھے اور انھیں کسی اور ملک میں دو ہفتوں کا قرنطینہ کرنا تھا۔۔۔اس کے علاوہ سیاح تھے، جو چھٹیاں منانے آئے ہوئے تھے۔۔یہ اجتماعی قرنطینہ ایسا ہی تھا جیسا داغ کے زمانے میں پردے کا رواج۔ 

سیاحوں کی سہولت کی خاطر تقریبا ہر ہوٹل کے باہر پاؤں دھونے کیلئے ایک مخصوص جگہ بنی ہوئی تھی جہاں پانی کا شاور یا پانی کا مٹکا رکھا ہوا ہوتا تھا۔ ساحل کی ریت بہت چپکو ہوتی ہے، تو یہ اہتمام ہمیں بہت پسند آیا۔۔۔

ہم نے کراچی میں سی ویو کافی بار دیکھا تھا۔ وہاں کی گندگی دیکھ دیکھ کر قریب تھا کہ ہم یہی سمجھتے کہ سمندر کا پانی کالے رنگ کا ہی ہوتا ہے ، جس میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں تیرتی ہیں۔۔جب مالدیپ کا سمندر دیکھا، تو یہاں کی صاف صفائی دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔۔۔صاف شفاف پانی، اور پانی میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں کچھ الگ ہی سماں پیش کر رہی تھیں۔۔۔

رنگ برنگی مچھلیوں کے علاوہ یہاں رنگ برنگے ناڑے والے دیسی پاکستانی بھائی بھی نظر آئے۔لمبے گیر والی شلواریں پانی میں غبارے کی طرح پھول کر لائف جیکٹ کا کام کرتی تھیں ۔ملک سے دور آکر بھی انھوں نے اپنی وضع قطع اور عادات و اطوار کو زندہ رکھا تھا اور اپنے قومی فریضے سے ایک لمحے کیلئے بھی غافل نہیں ہوتے تھے۔ جانے یہ انسانی جان کی حفاظت کے پیشِ نظر تھا کہ ان کی نظریں خواتین پر مستقل رہتیں۔ خاص کر جب غیر ملکی اور یورپین خواتین پانی میں اترتیں، تو یہ ان کے قریب قریب منڈلاتے رہتے کہ ڈوبنے کی صورت میں انھیں بچایا جا سکے۔پانی سے نکل کر یہ ساحلی کرسیوں پر ایک ادا سے لیٹ جاتے اور ان کے قوس قزح کے رنگ والے ناڑے دور سے نظر آتے۔۔ 

ہوٹل کی پچھلی گلی میں 'ہوٹ بائٹ' نامی ایک ریسٹورنٹ تھا جو باقیوں کے مقابل قدرے دیر تک کھلا رہتا تھا۔ اس ریسٹورنٹ کا ایک فائدہ یہ تھا کہ وہ فون پر آرڈر لے لیتے تھے اور ہوٹل کے استقبالیہ پر آ کر دے جاتے تھے۔ ان کا سب میرین، پیزا اور کلب سینڈوچ ہمارا پسندیدہ تھا۔

مالدیپ کے بیشتر جزیروں کی طرح مافوشی میں بھی دو طرح کے ساحل تھے۔ ایک جزیرے کی پچھلی جانب، جہاں آمد و رفت قدرے کم ہوتی تھی، اور ایک جزیرے کے سامنے ، جہاں سیاحوں کا ہجوم ہوتا تھا۔۔۔ پچھلی جانب والے ساحل کا نام لوکل بیچ، یا نو بکنی بیچ اور سامنے والے ساحل کا نام ٹورسٹ بیچ یا بکنی بیچ تھا۔ یہ ساحل مقامی اور سیاحتی ساحل سے زیادہ بکنی اور نو بکنی بیچز کے نام سے مشہور ہیں، اور گوگل پر بھی انہیں ناموں سے موجود ہیں۔ مقامی ساحل پر بورڈ آویزاں تھے ،جن پر لکھا تھا کہ یہاں چھوٹے کپڑوں میں نہانا منع ہے، جبکہ ٹورسٹ بیچ پر لکھا تھا کہ یہ چھوٹے کپڑوں میں نہانے کیلئے مخصوص بیچ ہے ، اور اس کے علاوہ ہر جگہ اس کی ممانعت ہے۔ وہاں کے مقامی لوگ زیادہ تر مقامی ساحل پر ہی جاتے۔۔۔

 جیتی جاگتی راتیں

مافوشی کی نائٹ لائف نہایت شاندار تھی۔ ۔۔ شام ڈھلتے ہی ہر گلی میں موسیقی کا دورشروع ہو جاتا تھا۔ جزیرے پر کئی سارے ٹور آپریٹرز تھے، جو پانی کی مختلف سرگرمیاں مہیا کرتے تھے۔۔ لکڑی کے بنے چھوٹے چھوٹے اسٹالز تھے، جن کے باہر کئی ساری جیٹ اِسکیز، فن ٹیوبز، لائف جیکٹس، سرفنگ بورڈ، چپو والی کشتیاں، اور دیگر پانی کے کھیلوں کا سامان موجود ہوتا تھا۔۔۔ ہر اسٹال پر رنگ برنگی روشنیاں، اور ساونڈ سسٹم لگا ہوتا تھا جس پر مختلف اقسام کے گانے چل رہے ہوتے تھے۔ انگریزی اور ہندی گانے بھی کافی مشہور تھے۔۔۔ رات کے وقت ان اسٹالز پر کچھ مقامی فنکار، ہاتھوں میں گٹار پکڑے لائیو پرفارم کر تے، اور سیاح مختلف گروہوں کی شکل میں انھیں داد دیتے۔۔۔ویسے تو ہمیں موسیقی سے کوئی خاص شغف نہیں اور نہ ہی ہم موسیقی کو روح کی غذا سمجھتے ہیں، بلکہ ہمارے کالج کے کیمیا کے استاد امجد صاحب کے بقول، موسیقی بد روح کی غذا ہے۔۔۔لیکن یہاں کی شامیں اور راتیں، موسیقی کے بنا ادھوری معلوم ہوتیں۔۔۔

ڈنر کے ساتھ ساتھ محفل موسیقی بھی زوروں پر ہوتی۔ تقریبا روزانہ مختلف مقامی موسیقار لائیو پرفارمنس کیلئے موجود ہوتے اور خوب سماں بندھتا۔ موسیقی کی دھن پر منچلوں کا رقص بھی جاری ہوتا۔۔۔ سمندر کی لہریں جب ساحل سے ٹکراتیں، تو ایک الگ موسیقی کی دھن بن جاتی۔ جیسے جیسے رات بڑھتی جاتی، لوگوں کا ہجوم کم ہوتا جاتا، اور پانی کی آواز خوفناک ہوتی جاتی۔ رات دس بجے کے قریب سناٹا چھا جاتا اور پھر سمندر کی لہروں کی خوفناک آواز کے سوا ،نہ کچھ سنائی دیتا، نہ کچھ دکھائی دیتا۔۔۔ کبھی آدھی رات کو کوئی دکھی آتما ساحل پر لگے جھولے پربیٹھی ہوتی، تو دور سے ایک ہیولا سا نظر آتا۔۔۔ ہم آدھی رات کو بالکونی میں بیٹھ کر ستارے دیکھتے اور سوچتے، کہ یہی سمندر دن میں کس قدر دلکش، حسین، اور اپنی طرف راغب کرنے والا محسوس ہوتا تھا۔۔۔ اس کی لہریں سریلی آواز میں اپنی طرف بلاتی تھیں۔۔ اور اندھیرا چھاتے ہی، اس قدر بھیانک معلوم ہوتا تھا، کہ ابھی قریب گئے اور یہ نگل لےگا۔۔۔

ارینا ہوٹل میں رات کو ڈنر کے بعد گھونگوں یعنی اسنیل کی ریس ہوتی تھی۔ہر کیڑے پر ایک سے لے کر دس تک نمبر لکھے ہوتے جو ہوٹل میں مقیم مہمانوں کے کمرہ نمبر کی نمائندگی کرتے۔ساحل کی نرم ریت پر ایک بڑا سا گول دائرہ بنا کر اس کے بیچ میں مختلف رنگ کے گھونگوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ ان کیڑوں کو رینگ کر کسی بھی سمت دائرے کے کنارے تک پہنچنا ہوتا ، اور کنارے تک پہنچنے والے پہلے تین گھونگے جس مہمان کے ہوں گے، وہ کسی چھوٹے موٹےانعام کا حقدار ہوگا۔۔ یہ کیڑے، جو اپنی سست روی میں مشہور ہیں، جب رینگ کر دائرے کے کنارے پر پہنچتے تو تالیوں کی گونچ میں اس کمرے کا مہمان اسٹیج پر آتا اور انعام وصول کرتا۔

کوئی رات سینما کیلئے مخصوص ہوتی اور پروجیکٹر لگا کر یہ ساحل ایک کھلی فضا والا سینما ہال بن جاتا۔۔۔ 

ہم نے اپنے قیام کے دوران زیادہ تر ارینا ہوٹل کا بُفے ڈنر ہی کھایا۔ پندرہ ڈالر فی کس کا یہ بُفے ہماری جیب اور پیٹ دونوں کو بھا گیا تھا۔۔ اب ہمارا روز کا یہ معمول بن گیا تھا کہ ڈنر کر کے پورے جزیرے کا ایک چکر لگاتے۔۔۔اس جزیرے کے آدھے سے کچھ کم حصے پر ایک جیل بنی ہوئی ہے جو مافوشی جیل کہلاتی ہے۔۔۔ہم جزیرے کے ایک کونے سے، جہاں ہمارا ہوٹل تھا، دوسرے کونے تک جہاں جیل ہے، روزانہ رات کو واک کرتے۔ بیچ میں ایک اسکول آتا تھا۔ ہمارے پندرہ دن کے قیام کے دوران ہم نے روزانہ سوچا کہ اگلے دن صبح سویرے اس اسکول پر آئیں اور یہاں کے ننھے منے طلبا سے ملیں۔ افسوس کہ ہم اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ کچھ قصوراس میں اسکول والوں کا بھی تھا کہ روز ہمارے بیدار ہونے سے پہلے نا صرف اسکول شروع ہوجاتا، بلکہ ہمارے جاگنے تک چھٹی بھی ہوجایا کرتی تھی۔۔ آخر کار یہ خواہش آخری دن کچھ اس طرح پوری ہوئی کہ واپسی کیلئے کرونا ٹیسٹ کے ہسپتال کے اوقات کار صبح کے تھے، اور ہمیں مجبورا علی الصبح اٹھنا پڑا۔۔

مافوشی سے تین منٹ کے فاصلے پر ایک فلوٹنگ بارہے، یہ ایک کشتی ہے جو کنارے سے بھی نظر آتی ہے۔۔۔ یہ مافوشی پر واحد جگہ ہے جہاں شراب دستیاب ہے۔ مالدیپ چونکہ اسلامی ملک ہے، اور شراب پر پابندی عائد ہے اور اس پر کافی سختی سے عمل بھی ہوتا ہے۔ زمین شاید اس بار کے بار کی متحمل نہ ہو سکی تو اس بار کو سمندر کی سطح پر تیرتا ہوا چھوڑ دیا گیا کہ رندوں کے پینے پلانے کااہتمام رہے۔یہ بار دیر رات تک کھلا رہتا ہے کہ شاید کسی کو مافوشی کی ہوا راس نہ آئے۔

مافوشی میں ناریل کے درختوں کی بہتات ہے۔ پورا جزیرہ ناریل کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ساحل پر ناریل کے کئی سارے درخت تھے جو کافی اونچے تھے۔۔ کچھ درختوں کے تنے عجیب محرابی شکل میں جھکے ہوئے تھے، جن کے اوپر رسی لٹکا کر کر جھولے بنائے گئے تھے۔۔یہاں جھولےکافی تعداد میں دیکھے۔ ہر ہوٹل کے نیچے، ریسٹورنٹ کے باہر،اسکول کے باہر، یہاں تک کہ کئی ہوٹل میں بالکونی میں بھی جھولے لگے ہوئے تھے۔ کچھ رسی کے بنے ہوئے، کچھ لکڑی کے اور کچھ لوہے کے، کچھ چھوٹے، جو ایک فرد کیلئے تھے،تو کچھ بڑے جن پر بیک وقت چار، پانچ لوگ جھول رہے ہوتے۔ ۔۔رسی کے بنے ہوئے جالی دار جھولے، جنھیں ہیمک کہا جاتا ہے، یہ بھی کافی تعداد میں نظر آئے۔ ان جھولوں پر جھولنا سب کا بہترین مشغلہ تھا۔۔ 

جب ہم نے سفر کیلئے مالدیپ کا ارادہ کیا تھا تو چند ایک خیرخواہوں نے مشورہ دیا تھا کہ پندرہ دن گزارنے کیلئے مالدیپ مناسب نہیں کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہے، طبیعت بور ہو جائے گی۔۔ لیکن ہم بضد تھے کہ اپنی طبیعت سے خوب واقف ہیں۔۔ ہمیں ساحلوں اور سمندروں سے ایک خاص عشق ہے اور ہم بخوبی جانتے تھے کہ بور ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ اور یوں ہی ہوا۔۔ جب ہمارا پندرھواں دن تھا اور واپسی کیلئے سامانِ سفر باندھ رہے تھے، تو نہ صرف ہمارا، بلکہ بیگم کا بھی یہی دل تھا کہ پانی میں ایک اور ڈبکی لگا لی جائے۔۔۔ گیلے کپڑوں کے ساتھ سفر کرنے میں پریشانی کی فکر نہ ہوتی، تو ہم یہ ضرور کرتے۔۔

یہاں حفاظتی جیکٹ پر کافی سختی سے عمل ہوتا دیکھا۔ اس سے قبل پاکستان میں کئی مرتبہ مچھلی کے شکار پر جانے کا اتفاق ہوا۔ کشتی والے حفاظتی جیکٹ دیتے تو تھے لیکن اسے پہننا ، نا پہننا، سواریوں کی مرضی پر منحصر ہوتا۔ پیلے رنگ کی صدیوں پرانی اس جیکٹ کا فائدہ محض یہ تھا کہ پانی میں تیرتی لاش دور سے پہچانی جا سکے۔ البتہ یہاں حفاظتی جیکٹ اسم با مسمی تھی اور واقعتا پانی میں ڈوبنے سے بچاتی تھی۔ اوراس کا پہننا ، نہ صرف سواریوں پر، بلکہ عملے پر بھی لازم تھا۔ پھر چاہے پیرا سیلنگ ہو، اسنارکلنگ ہو یا جیٹ اِسکی کی سواری ہو، حفاظتی جیکٹ لازم تھی۔

اسنارکلنگ

اسنارکلنگ کیلئے لے جانے والی فیری پر ہماری ملاقات ایک دیسی جوڑے سے ہوئی۔ میری لڑکے سے مختصر بات چیت ہوئی اور میں نے بیگم کو کہا کہ یہ انڈین ہیں۔ بیگم کی لڑکی سے تھوڑی گپ شپ ہوئی تھی، تو اس نے کہا کہ نہیں، یہ پاکستانی ہیں۔ آخر کار حقیقت کھلی کہ لڑکا انڈین ہے، اور لڑکی پاکستانی، اور دونوں نے محبت کی شادی کی ہے۔ اتفاق سے وہ بھی ہماری طرح یہاں قرنطینہ کرنے آئے تھے اور آگے سعودیہ جانا تھا۔

اس کے بعد ہماری اور ان کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ چھوٹا سا جزیرہ تھا، اور ہمارا ہوٹل بھی ایک ہی تھا۔ کبھی ناشتے پر مل گئےاور گپ شپ ہو گئی، کبھی کسی ریستوران میں ڈنر پر ٹکرا گئے۔ انھوں نے ہمیں ہولومالے میں خالد برگر کے بارے میں بتایا جو کافی مشہور تھا۔ ہم نے اپنی لسٹ میں اس برگر کو بھی شامل کر لیا اور آخری دن جب ائیرپورٹ گئے، تو فون پر آرڈر کر کےائیرپورٹ پر منگوا کر کھایا۔ مالدیپ سے واپس سعودیہ آنے کےبعد ہماری کبھی تبریز بھائی سے علیک سلیک ہو جاتی ہے، جبکہ بیگم بھی ان کی بیگم سے رابطے میں ہیں۔

ہمارے گروپ میں مختلف قوموں اور زبانوں کے لوگ موجود تھے۔ ان میں ایک ہسپانوی سیاح بھی تھا، جس کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی۔ جب فیری بیچ سمندر میں مقررہ جگہ پر پہنچی تو اس نے اپنے جوتے اتارے، مصنوعی ٹانگ نکال کر فیری میں رکھی، اور اپنے بیگ سے غوطہ خوری والے مخصوص فنز نکالے اور ایک پاؤں میں پہن کر فیری سے پانی میں چھلانگ لگا دی۔۔۔ باقی تمام سیاح، بشمول فیری کے عملے کے، اسے دیکھتے ہی رہ گئے کہ ہم سب دو ٹانگوں کے ساتھ اتنی عمدہ تیراکی اور غوطہ خوری نہیں کر سکتے تھے، جیسا تیراکی کا مظاہرہ اس نے ایک ٹانگ سے کیا تھا۔۔۔ اب وہ ایک گائیڈ کی طرح سب کو سمجھا رہا تھا۔۔۔

اسنارکلنگ کا یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا، اورعملے کی جانب سے گو پرو کیمرے سے سب کی باری باری کئی تصاویر اور ویڈیوز بنائی جاتی رہیں۔۔ مچھلیوں کی موجودگی میں، گہرے پانی میں اترنا اور سمندر کے اندر کے مناظر دیکھنا، یہ ڈر اور خوف کے ساتھ ساتھ اچھی تفریح تھی۔۔گو کہ ہم نے حفاظتی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، لیکن اپنے آپ کو بغیر کسی آسرے کے سمندر کے حوالے کر دینے پر ہم رضامند نہ تھے۔ پھر یہ خوف بھی تھا کہ یہ جیکٹ ہمیں پانی کی سطح پر ضرور رکھے گی، لیکن یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ منہ کے بل یا کمر کے بل۔۔۔ ہم نےایک ہاتھ سےکشتی کی سیڑھی پکڑ کر اسنارکلنگ کرنے پر اکتفا کیا۔

اسنارکلنگ ٹرپ میں ہم ایک جزیرے پر اترے جہاں آبادی نہیں تھی. جزیرہ کیا تھا، ، چند میٹر پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینڈ بینک تھا۔ جس پرریت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کشتی والے نے جزیرے پر اتر کر چند چھتریاں لگا دیں اور نیچے چادر بچھا دی، اور تمام مسافر ان چادروں پر بیٹھ گئے۔ ہم بھی ایک چادر کے کونے پر جا بیٹھے اور کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ ہر مسافر کیلئے ایک ایک سب مارین سینڈوچ دیا گیا۔سینڈوچ کھا کر ہم جزیرے کے کنارے کنارے پانی میں چلنے لگے۔ یہ جگہ چونکہ آبادی سے کافی دور تھی، اسلئے یہاں کا پانی زیادہ صاف شفاف تھا، اور لہریں بھی زیادہ تھیں۔ ہم جزیرے کے گرد ایسے ہی کچھ دیر گھومتے رہے اور پھر کشتی میں بیٹھ کر واپسی کیلئے روانہ ہوگئے۔

پیرا سیلنگ

جس دن ہمارا پیرا سیلنگ کا ارادہ تھا، اس دن ہم صبح سویرے دس بجے فیری پر پہنچ گئے۔ یہ خاص پیرا سیلنگ کی فیری تھی جس میں تین جوڑے تھے۔ فیری ہمیں کنارے سے تھوڑا آگے بیچ سمندر میں لے گئی اور ہوا کے رخ کے مخالف موڑ کر ہمیں لائف جیکٹ، اور مخصوص بیلٹ پہنا کر فیری کے پچھلے حصے میں تقریبا لٹا دیا گیا اور پیرا شوٹ کھول دیا گیا۔۔۔ہم، جو ایک بھاری بھرکم، وزنی وجود کے حامل ہیں، اپنے وزن کی وجہ سے پیرا سیلنگ سے اس قدر خائف تھے کہ مافوشی پر موجود ہر پیرا سیلنگ والے سے یہ سوال ضرور پوچھ چکےتھے کہ اس سرگرمی کیلئے وزن کی حد کیا ہے۔۔۔ بیشتر نے تسلی دلائی تھی کہ ہمارے پاس آپ سے زیادہ وزن والے لوگ بھی یہ کر چکے ہیں اور یہ کہ آپ نے بالکل بھی گھبرانا نہیں ہے۔۔۔ عام حالات میں اگر کوئی اتنے اعتماد سے کہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، تو کافی حد تک تسلی ہو جاتی ہے، لیکن ہم پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات سے اتنی سمجھ بوجھ رکھتے تھے کہ اس جملے سے تسلی کے بجائے اور ڈر گئے تھے۔۔۔ خیر سے اب، جب فیری کے پچھلے حصے میں لیٹے، اسی خیال میں کھوئے ہوئے تھے کہ کب ہم ہوا میں بلند ہوں گے، کہ اچانک نیچے نظر پڑی اور محسوس ہوا کہ ہم کافی دیر سے ہوا میں معلق ہیں اور فیری سے کئی فٹ اوپر جا چکے ہیں۔۔۔اس پیرا شوٹ اور ہوا کے زور کے سامنے ہم گویا اپنے آپ کو روئی جیسا محسوس کر رہے تھے جو ایک لمبی ڈور سے فیری سے منسلک تھے۔۔۔جزیرے کی عمارتیں چھوٹی چھوٹی سے لگنے لگی تھیں، اور پورا جزیرہ ایک نظر میں دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ نیچے سمندر کے پانی کا بدلتا رنگ بھی واضح ہو رہا تھا۔۔۔نہایت دلکش منظر تھا، اور خوف تو نام کو بھی نہیں تھا۔۔۔تقریباً بیس منٹ ہم اسی طرح ہوا میں معلق رہے اور فیری مختلف موڑ کاٹتی ہوئی سمندر میں گھومتی رہی اور اس رسے سے جڑے ہم اسی طرح ہوا میں اڑتے رہے۔۔۔بیس منٹ بعد فیری نے مشین کے ذریعے رسا کھینچنا شروع کیا اور ہم آہستہ آہستہ بڑی آسانی کے ساتھ فیری پر لینڈ ہو گئے۔۔۔

 

فن ٹیوب

پانی کی سرگرمیوں میں ایک 'فن ٹیوب' تھی۔۔ یہ ٹیوب اسم با مسمی تھی۔ یہ ایک ہوا والی گول ٹیوب تھی، جسے رسے کے ساتھ جیٹ اِسکی سے باندھا جاتا تھا اورجب جیٹ اِسکی تیز رفتار سے چلتی تھی، تو ہر آنے والی لہر سے یہ ٹیوب خوب اوپر اچھلتی، اور ہم ٹیوب میں بیٹھے، ایک جگہ سے اوپر اٹھتے، اور ٹیوب کی دوسری جانب نیچے گرتے۔ یہ ہوا میں اٹھنے اور نیچے گرنے کا سلسلہ چلتا رہا اور ہم توے پر پکتے پاپ کارن کی طرح اچھلتے رہے۔ جب تیز رفتار جیٹ اسکی اچانک موڑ کاٹتی، تو ہم ہوا میں اچھل کر آدھے پانی میں ہوتے، اور بمشکل ایک ہاتھ سے ہینڈل پکڑا ہوتا کہ جب دوسری جانب موڑ کاٹے، تواچھل کر اندر آجائیں۔ اس اچھل کود کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اس میں بیٹھ کر گئے تھے، اور لیٹ کر واپس آئے۔ یہ فن ٹیوب ہمیں اتنی پسند آئی کہ ہم نے یہ دوبارہ کرنے کی ٹھان لی۔۔۔


گُلھی کا سفر

گُلھی، چار سو میٹر لمبا اور دو سو میٹر چوڑا جزیرہ ہے، گویا مافوشی سے بھی تقریباً آدھا۔ہم نے مافوشی پر موجود کافی آپریٹرز سے مختلف سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات کی تھیں، اور اب ہمارا ارادہ کسی دوسرے جزیرے پر چند گھنٹے گزارنے کا تھا۔۔ ایک آپریٹر نے گُلھی جانے کا مشورہ دیا۔۔۔ ہم نے دن اور وقت طے کرلیا اور مقررہ وقت پراس کے پاس پہنچ گئے۔ جیٹ اِسکی تیار کھڑی تھی۔۔ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ جیٹ اِ سکی، جو دیکھنے میں چھوٹی سی لگتی ہے، اس پر تین مسافر آرام سے سوار ہو سکتے ہیں۔۔ اور یہ کہ اس کے آگے خاصی مناسب جگہ ہوتی ہے جس کے اندر سامان رکھا جا سکتا ہے۔۔ ہم نے اپنا سامان اس کے اندر رکھا اور اس پر سوار ہو گئے۔۔۔ اس سے پہلے جب ہم جیٹ اِسکی پر بیگم کے ساتھ بیٹھے تھے، تو حفاظتی اقدام کے تحت، اس کی رفتار دھیمی رکھی تھی۔ اب،جب کہ ایک پروفیشنل بندہ اسے چلا رہا تھا تو رفتار خاصی تیز تھی۔ گہرے سمندر میں جب موجوں کے تھپیڑے ہماری طرف آتے تو جیٹ اِسکی کئی فٹ ہوا میں اچھلتی۔ آدھے گھنٹے کا یہ سفر خوف اور مزے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بہت شاندار رہا۔۔۔

گُلھی پہنچے تو شام چار بجے کا وقت تھا۔ ہم نے جیٹ اِسکی والے کو دو گھنٹے بعد کا وقت دیا اور جزیرے پر اتر گئے۔۔ یہ جزیرہ بہت چھوٹا سا تھا۔ ایک طرف مقامی رہائش تھی، اور دوسری طرف، جو سیاحوں کا علاقہ تھا، اس میں نہایت خوبصورت ساحل بنا ہوا تھا۔ جزیرے کے اس حصے میں، ہم اکیلے سیاح تھے، اور دور دور تک کوئی نہ تھا۔۔۔ ہم نے اپنا سامان ایک طرف رکھا اور سمندر میں اتر گئے۔۔۔ یہاں پانی کے بیچ میں دو جھولے لگے ہوئے تھے جو کہ اس جزیرے کی پہچان اور ہمارے یہاں آنے کی ایک وجہ تھی۔ جب سمندر کا پانی چڑھا ہوا تھا، تو یہ جھولا آدھا پانی میں ڈوبا ہوا تھا، اور جیسے جیسے پانی اترتا گیا، یہ اوپر ہوتا رہا۔جھولے پر بیٹھے، پانی میں پاؤں لٹکائے ہم کافی دیر اس حسین منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہاں سمندر کا پانی بالکل صاف شفاف تھا اور چار فٹ پانی میں جانے کے باوجود بھی اپنے پاؤں صاف نظر آتے۔ چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیاں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں، جو انتہائی خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔۔

خاموشی، لہروں کی موج مستی، صاف شفاف پانی، رنگ پرنگی مچھلیاں، کنارے پر بکھری ہوئی سیپیاں، افق پر ڈوبتا ہوا سورج، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، آسمان پر خوبصورت بادل۔۔۔ اس جزیرے پر دو گھنٹے گزار کر ایسا محسوس ہوا گویا دو دن گزار لیے ہوں۔۔۔ جیسے ساری تازگی اپنے اندر سمیٹ لی ہو، جیسے روح تک ایک سکون پہنچا ہو۔۔ٹھیک چھ بجے جیٹ اسکی کنارے پر آگئی اور ہمارا واپسی مافوشی کا سفر شروع ہوا۔۔۔

 

کچھ مافوشی کے بارے میں

مافوشی میں دو مساجد ہیں۔ ایک مسجد الفاروق اور ایک مافوشی مسجد۔ ہمارا مسجد الفاروق میں جانے کااتفاق ہوا۔ مقامی خواتین اپنے گھروں پر ہی نماز کا اہتمام کرتیں۔مسجد میں خواتین کیلئے الگ سے جگہ کا اہتمام نہ تھا، البتہ ایک کونے میں لکڑی کے بنے ہوئے سیپریٹرز رکھے ہوئے تھے، جنھیں حسب ضرورت کوئی اکا دکا خاتون سیاح استعمال کر لیتی۔

مقامی آبادی تقریبا سو فیصد مسلمان ہے۔ یہ لوگ اعلی اخلاق اور نہایت ادب اور احترام سے پیش آنے والے، سیدھے سادے شریف لوگ ہیں۔ لین دین اور خرید و فروخت میں انتہائی ایمانداری سے پیش آتے ہیں۔۔ مقامی لوگوں کے علاوہ یہاں انڈیا، نیپال اور بنگلادیش کے لوگ ملازمت پر نظرآئے۔۔۔

مقامی خواتین ایک خاص قسم کا برقعہ اور اسکارف استعمال کرتی ہیں، بائیک چلاتی ہیں، ریسٹورنٹ اور کیفے چلاتی ہیں اور انگریزی بولتی اور سمجھتی ہیں۔۔چاہے دوپہر کا کھانا ہو یا رات کا، اکثر ریسٹورنٹ آرڈر پر تازہ پکاتے ہیں۔۔ کئی ریسٹورنٹ ایسے ہیں جن کے اندر سے ہی گھر کے کچن کا رستہ نکلتا ہے، اور آرڈر آنے پر گھر کے کچن میں تازہ کھانا پکا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ 

مالدیپ کی کرنسی مالدیوین روفیہ ہے، لیکن ہر جگہ زیادہ تر ڈالر ہی چلتا۔۔۔ ہر کیفے اور ریسٹورنٹ نے مینیو کی ایک بڑی سی تختی لگائی ہوتی ، جس پر چاک سے مینیو اور قیمتیں لکھی ہوتیں۔۔۔ کوئی ویٹر، ٹپ نہیں مانگتا، اور ڈالر کے بدلے زیادہ تر ڈالر میں ہی بقایا بھی دیا جاتا ۔ کسی چھوٹے ریسٹورنٹ میں اگر ڈالر نا ہو، تو وہ پیشگی معذرت خواہانہ انداز میں کہہ دیتا کہ بقایا رقم روفیہ میں دی جائے گی۔۔۔ ہمیں وہاں کے ویٹر دیکھ کر وطن عزیز کے ویٹر یاد آئے، جوکبھی ٹپ کم ہونے پرزیر لب بڑبڑانے لگتے تھے، اور کچھ تو اس قدر ڈھٹائی سے ٹپ کا تقاضا کرتے تھے ،کہ جان چھڑانا مشکل ہوجا تا تھا۔۔۔

یہاں اکثر دکانوں میں قالین بچھے ہوئے تھے اور دکان میں داخل ہونے سے پہلے جوتے باہر اتارنے کا رواج تھا۔ دوکاندار اپنی اپنی دکانوں کے باہر کھڑے ہوتے اور گاہکوں کو انتہائی مہذب انداز میں اپنی طرف متوجہ کرتے۔۔اور کمال یہ تھا کہ صرف ایک بار ہی کرتے، اور گاہک کے مسکرا کر آگے بڑھ جانے کو اپنی ہتک عزت نہ سمجھتے بلکہ جوابی مسکراہٹ سے الوداع کرتے۔۔ہم نے آخری دن ان دکانوں سے یادگارکے طور پر کچھ تحائف خریدے۔کچھ فریج پر لگانے والی مقناطیسی نشانیاں اور کچھ مقامی ملبوسات لیے۔۔۔

مافوشی میں چونکہ ہماری طرح اور بھی کافی لوگ دو ہفتے کا قرنطینہ کرنے آئے ہوئے تھے، اور کچھ یہ جزیرہ بھی چھوٹا سا تھا، اس لیےاجنبی بھی اب اجنبی نہ رہے تھے۔۔۔ دن میں کئی بار جانی پہچانی شکلیں نظر آتیں۔ ۔۔کبھی ناشتے پر، کبھی رات کے کھانے پر، تو کبھی شام کو چہل قدمی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا کر گزر جاتے۔۔۔ 

کھانے میں دو چیزیں ایسی تھیں کہ تقریبا ہر کھانے کا جز ہوتیں۔ ایک ناریل، دوسرا مچھلی۔۔۔ہر کھانا ناریل کے تیل میں پکا ہوا ہوتا تھا۔۔۔ ٹونا مچھلی ہر ہوٹل کے ہر مینیو میں ہوتی تھی ،روٹی، جسے مقامی زبان میں روشی کہا جاتا ہے، اور چاول کے ساتھ کھائی جاتی تھی۔۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے سیاحوں کے پیش نظر ہر طرح کی خوراک موجود ہوتی۔۔ ہم نے بریانی، پلاو، چکن کڑاھی ، دال چاول وغیرہ بھی کھایا۔۔۔ناجانے کیوں، ہاف فرائی انڈہ ، ہر ڈش کے اوپر ڈالاہوا ہوتا تھا۔۔ بریانی، پلاو ، چائنیز ، سب کے اوپر خوبصورتی سے سجایا ہاف فرائی انڈہ۔۔۔مافوشی میں قیام کے دوران ہم نے تقریبا روز ہی ناریل پانی پیا۔ یہاں کے ناریل کا پانی کافی لذیذ اور میٹھا تھا۔ بیگم صاحبہ مالدیپ کے ناریل سے اتنی متاثر ہوئیں کہ دو عدد ناریل ہم سامان میں ڈال کر سعودیہ بھی لائے۔۔۔

ایٹ سیٹرا

 

 Etc.ایٹ سیٹرا


دفتر سے گھر ،گھر سے دفتر،  کام دھندا  ایٹ سیٹرا  

جینے کا بس ایک ہی مقصد، گاڑی، بنگلہ  ایٹ سیٹرا 



کل شب گھر جو دیر سے پہنچے، اچھا استقبال ہوا

بیلن، چمچہ، چاقو، چھڑیاں، ہاون دستہ  ایٹ سیٹرا


ویسے تو سب ٹھیک ہے لیکن تھوڑی سی بیماری ہے

شوگر، بی پی، کولیسٹرول، ٹی بی، دمہ  ایٹ سیٹرا


بیٹھے ہیں پردیس میں یاروں، عید ہماری نا ہی پوچھو

سونا، اٹھنا، کھانا، پینا، پھر سے سونا،   ایٹ سیٹرا


ٹیچر نے جب پیپر میں یہ پوچھا کیا کیا آتا ہے؟

آتا تھا جو، سب کچھ لکھا، آگے لکھا  ایٹ سیٹرا



کالج میں ڈگری کے علاوہ ضمنی پیداوار بھی ہیں

سگریٹ،بیڑی، سونف، سپاری، پان گٹکا، ایٹ سیٹرا


بیگم سے جب پیار سے پوچھا، میرے بِن دن کیسا گزرا

جھاڑو ، پونچا، برتن، کھانا، کپڑے دھونا   ایٹ سیٹرا


میٹھے سے پرہیز ہے لیکن، پھر بھی تھوڑا لے آئیے گا

لڈو، پیڑے، ربڑی، کھویا، سوہن حلوہ، ایٹ سیٹرا


دفتر سے جب نکلا، پوچھا،آتے آتے کیا لے آؤں؟

دودھ، دہی، انڈہ، روٹی، دھنیا، پودینا،   ایٹ سیٹرا


کالج میں تعلیم نئی ہے، دفتر میں انداز نئے

پیار، محبت، دل کی باتیں، آنکھ مٹکا  ایٹ سیٹرا



وہ بھی گر اس دور میں ہوتے، میری محبت کا دم بھرتے

لیلی مجنوں، سسی پنوں، ہیر رانجھا،   ایٹ سیٹرا

   

محبت ہو گئی نا ۔۔۔

 

محبت ہو گئی نا ۔۔۔

یاسر یونس


مہرباں میری قسمت ہو گئی نا
مجھے خود سے محبت ہو گئی نا

کہا مجھ سے یہ اک دن زندگی نے
تمہیں بھی غم کی عادت ہو گئی نا

کہا تھا نا کہ اتنے پاس مت  آؤ
تمہیں آخر محبت ہو گئی نا۔۔

کہا تھا نا کہ بن ٹھن کر نہ نکلو
یہ  دیکھو، پھر قیامت ہو گئی نا

میری اس کی محبت کی کہانی،
کہانی تھی، حقیقت ہو گئی نا

امیرِ شہر  کا کتا مرا ہے
غریبوں کی بھی دعوت ہو گئی نا

کہا تو تھا کہ اتنا سچ نہ بولو۔۔

زمانے سے بغاوت ہو گئی نا

کہا بھی تھا، نہ دینا دل کسی کو
بہت مہنگی تجارت ہو گئی نا

بچھڑ کر تم سے جو مرنے لگا تھا
بحال اس کی طبیعت ہو گئی نا


خریدو گے سکونِ دل کہاں سے
امیری میں بھی غربت ہو گئی نا

سنائی تھی اسے اپنی کہانی

اسے رونےکی عادت ہو گئی نا