اشاعتیں

ایٹ سیٹرا

 

 Etc.ایٹ سیٹرا


دفتر سے گھر ،گھر سے دفتر،  کام دھندا  ایٹ سیٹرا  

جینے کا بس ایک ہی مقصد، گاڑی، بنگلہ  ایٹ سیٹرا 



کل شب گھر جو دیر سے پہنچے، اچھا استقبال ہوا

بیلن، چمچہ، چاقو، چھڑیاں، ہاون دستہ  ایٹ سیٹرا


ویسے تو سب ٹھیک ہے لیکن تھوڑی سی بیماری ہے

شوگر، بی پی، کولیسٹرول، ٹی بی، دمہ  ایٹ سیٹرا


بیٹھے ہیں پردیس میں یاروں، عید ہماری نا ہی پوچھو

سونا، اٹھنا، کھانا، پینا، پھر سے سونا،   ایٹ سیٹرا


ٹیچر نے جب پیپر میں یہ پوچھا کیا کیا آتا ہے؟

آتا تھا جو، سب کچھ لکھا، آگے لکھا  ایٹ سیٹرا



کالج میں ڈگری کے علاوہ ضمنی پیداوار بھی ہیں

سگریٹ،بیڑی، سونف، سپاری، پان گٹکا، ایٹ سیٹرا


بیگم سے جب پیار سے پوچھا، میرے بِن دن کیسا گزرا

جھاڑو ، پونچا، برتن، کھانا، کپڑے دھونا   ایٹ سیٹرا


میٹھے سے پرہیز ہے لیکن، پھر بھی تھوڑا لے آئیے گا

لڈو، پیڑے، ربڑی، کھویا، سوہن حلوہ، ایٹ سیٹرا


دفتر سے جب نکلا، پوچھا،آتے آتے کیا لے آؤں؟

دودھ، دہی، انڈہ، روٹی، دھنیا، پودینا،   ایٹ سیٹرا


کالج میں تعلیم نئی ہے، دفتر میں انداز نئے

پیار، محبت، دل کی باتیں، آنکھ مٹکا  ایٹ سیٹرا



وہ بھی گر اس دور میں ہوتے، میری محبت کا دم بھرتے

لیلی مجنوں، سسی پنوں، ہیر رانجھا،   ایٹ سیٹرا

   

محبت ہو گئی نا ۔۔۔

 

محبت ہو گئی نا ۔۔۔

یاسر یونس


مہرباں میری قسمت ہو گئی نا
مجھے خود سے محبت ہو گئی نا

کہا مجھ سے یہ اک دن زندگی نے
تمہیں بھی غم کی عادت ہو گئی نا

کہا تھا نا کہ اتنے پاس مت  آؤ
تمہیں آخر محبت ہو گئی نا۔۔

کہا تھا نا کہ بن ٹھن کر نہ نکلو
یہ  دیکھو، پھر قیامت ہو گئی نا

میری اس کی محبت کی کہانی،
کہانی تھی، حقیقت ہو گئی نا

امیرِ شہر  کا کتا مرا ہے
غریبوں کی بھی دعوت ہو گئی نا

کہا تو تھا کہ اتنا سچ نہ بولو۔۔

زمانے سے بغاوت ہو گئی نا

کہا بھی تھا، نہ دینا دل کسی کو
بہت مہنگی تجارت ہو گئی نا

بچھڑ کر تم سے جو مرنے لگا تھا
بحال اس کی طبیعت ہو گئی نا


خریدو گے سکونِ دل کہاں سے
امیری میں بھی غربت ہو گئی نا

سنائی تھی اسے اپنی کہانی

اسے رونےکی عادت ہو گئی نا

ہم نے کووِڈ کے زمانے میں محبت کی ہے

 

اہلِ ووہان نے یہ کیسی حماقت کی ہے

ساری دنیا میں بپا ایک قیامت کی ہے

 

ہم نے دنیا سے کچھ اس طور بغاوت کی ہے

دورِ فرقت میں یہاں وصل کی چاہت کی ہے

 

پوچھیے ہم سے ذرا طولِ شبِ ہجر و فراق

ہم نے کووِڈ کے زمانے میں محبت کی ہے

 

جتنے آزاد تھے، سب اپنے ہی گھر قید ہوئے

اہلِ کشمیر نے لگتا ہے شکایت کی ہے

 

آہ یہ سال کہ تعزیتیں کرتے گزرا

اور ہر ایک نے ہر اِک سے عیادت کی ہے

 

وہ زمانے گئے، منفی سے پریشان تھے لوگ

یہ نیا دور ہے یاں فکر ہی مثبت کی ہے

 

دست بوسی کیلئے ہاتھ بڑھاتے تھے کبھی

فاصلہ رکھ کے وہ ملتے ہیں، یہ حالت کی ہے

 

جن کا پیشہ تھا مسیحائی، وہ تاجر نکلے

اور مریضوں سے ہی سانسوں کی تجارت کی ہے

 

بدلہ لینا تھا، سو دشمن سےگلے مل آیا

ہائے یہ کیسی جداگانہ عداوت کی ہے

 

ہاتھ سے ہاتھ کا چھونا بھی ہلاکت ٹھہرا

اور پھر ہم ہیں کہ ہونٹوں سے شرارت کی ہے

پھر سفر زیست کا کتنا مجھے آساں ہوتا

 

 

پھر سفر زیست کا کتنا مجھے آساں ہوتا

یاسر یونس

 

تجھ سے نفرت کا اگر تھوڑا سا امکاں ہوتا 

پھر سفر زیست کا کتنا مجھے آساں ہوتا

تیرے جانے کا کوئی رنج نہ آنے کی خوشی

تیرا ہونا، نہیں ہونا، مجھے یکساں ہوتا

آس ہوتی نہ کبھی تیرے پلٹنے کی مجھے

اور اگر لوٹ بھی آتا تو میں حیراں ہوتا

جو دِیا بجھ گیا، جلتا وہ اگر تا بہ سحر

شبِ تاریک میں جینا مجھے آساں ہوتا

پھر تیری آخری  خواہش کا بھرم بھی رہتا       

بھول جاتا میں،   اگر بھولنا آساں ہوتا

یو ں تو ارماں ہی نہیں اس دلِ ویراں میں مگر       

پھر سے ہوتا بھی اگر، تیرا ہی ارماں ہوتا

تیری آنکھوں سے ٹپکتا جو کبھی اِک آنسو

وہ صدف کیلئے اِک قطرہ نیساں ہوتا

پھول کھلتے دلِ ویراں میں تیری یادوں کے

پھر خزاں میں بھی یہاں جشن ِبہاراں ہوتا

تیرے آنے سے بیابان بھی گلشن لگتے

تیرے جانے سے گلستان بھی ویراں ہوتا

کتنا آساں تھا محبت کا کسی سے ہونا

کاش نفرت کا بھی ہونا ، یونہی آساں ہوتا

میری خوشیوں میں چھپے درد سمجھتا کوئی      

میرے جیساکوئی میرا بھی نگہباں ہوتا

باعثِ رشک ِجہاں میری محبت ہوتی       

مجھ پہ تھوڑا سا اگر وقت مہرباں ہوتا

گر لکھا ہوتا میرا نام تیرے نام کے ساتھ         

پھر مکمل میری اس غزل کا عنواں ہوتا